021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ناجائز حیلے سے میراث پر قبضہ کرنا
75403میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء دین کہ ایک شخص کے وارثان میں 2 بیویاں ہیں، جن میں دوسری بیوی  کاایک ہی بیٹا اس کی وفات کے بعد پیدا ہوکر ایک مہینہ کی عمر میں فوت ہوگیا ،جبکہ پہلی بیوی سے اس کی ایک ہی بیٹی زندگی  تھی ایک بہن اور والد بھی موجو تھے۔ دوسری بیوی چونکہ گاؤں کے نمبردارکی  بیٹی تھی اس نے اپنے ایک مہینے کے بیٹے کو بذریعہ عدالت اپنےخاوند کی جائداد کا حصہ دلوا لیا اور پھر ایک ماہ کےفوت بیٹےکوشیعہ ظاہر کرکے سارا حصہ اپنے نام کروالیا ،جبکہ اسکا خاوند (مورث اعلٰی) اھلسنت والجماعث تھا ۔

اب سوال یہ ہے کہ شریعت اسلامی کی روشنی میں بتائیں کہ نابالغ بچے کی جائداد اپنے والد کے مذہب کے خلاف تقسیم کی جاسکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر فوت ہونے والے شخص کے ورثہ یہی ہیں جو سوال میں ذکر ہیں تو اس  صورت میں ا س نومولود بچے کا ،والد کے ترکے میں 47.22فیصد حصہ بنتا ہے۔وہ بچے کا حق ہوگا۔ اب بچے کے فوت ہونے کےبعد  وہ حصہ بچے کے ورثہ میں تقسیم ہوگا۔والدہ کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے،جو بچے کے دوسرے ورثہ معلوم ہونے پر بتایاجاسکتا ہے،مگر تمام ترکے پر کسی بھی بہانے سے قبضہ کرنا دوسروں کی حق تلفی  ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔بقیہ ورثہ کو ان کا حصہ دینا لازم ہے

حوالہ جات

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

13/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب