021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مصرف کی تعیین کے ساتھ رکوٰة دینا
75374زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

ہم ایک رفاہی ادارہخدیجۃ الکبری ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے چلاتے ہیں، جس کا مرکزی دفترڈیفنس کراچی میں واقع ہے، یہ ٹرسٹ مختلف  تعلیمی اوررفاہی خدمات  میں مصروفِ عمل ہے، ہم ’ ٹرسٹ ‘ کے مکمل  طریقہ کار کے حوالے سے شرعی  راہنمائی چاہتے ہیں،ہم اپنا طریقہ کاراور اس میں درپیش مسائل  آپ حضرات کے سامنے  پیش کررہے ہیں، تاکہ آپ حضرات  شریعت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

ڈونیشن(Donation)  سے متعلق  مسائل  

“ٹرسٹ” میں آنے والی ڈونیشن نقدی کی شکل میں بھی ہوتی ہے اور اشیاء کی شکل  میں بھی ، “ٹرسٹ”  مختلف رقوم  اورامدادی اشیاء کا حساب کتاب   بنیادی طور پرچار ((4  الگ الگ کھاتوں (Accounts) میں رکھتا ہے:

  1. زکوۃ وصدقاتِ واجبہ       

(2)صدقاتِ نافلہ، عطیات، خیرات       

(3)فدیہ صوم وصلاۃاور کفارات (کفارہ یمین وغیرہ)

(4) فیس

(1) زکوۃ وصدقاتِ واجبہ

کچھ مخیر حضرات کسی مصرف کی تعیین کے بغیر زکوۃ دیتے ہیں اور کچھ لوگ زکوۃ دیتے وقت کسی خاص مصرف  یا پروجیکٹ کی تخصیص کردیتے ہیں، جیسے کوئی شخص کہتا  ہے  کہ اس زکوۃ  کوراشن فراہم کرنے کی مد میں استعمال کرنا ہے وغیرہ،ایسی صورت میں ’’ٹرسٹ”  اس رقم کو متعین پروجیکٹ کے لیے مختص کردیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینے والے  کی منشا کے مطابق  اسے متعین مصرف اورپروجیکٹ  میں  ہی خرچ کیا جائے۔

1.کیا کسی خاص مصرف میں خرچ کرنے کی شرط پر زکوۃ کی رقم  دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی یا اسے ادارہ پر چھوڑ دینا چاہیے کہ ادارہ  جہاں بہتر سمجھے وہاں خرچ کرے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1.اگر زکوة کی رقم براہِ راست کسی مستحق کے حوالے کی جائے تو پھر اسے اس بات کا پابند بنانا کہ وہ اس رقم کو کسی خاص مصرف میں خرچ کرے مناسب نہیں،بلکہ اسے بغیر کسی شرط کے دینی چاہیے،تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال کرسکے۔

لیکن اگر دینے والا کسی رفاہی ادارے کو زکوة کی رقم دے رہا ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس ادارے کو کسی بھی مصرف میں خرچ کرنے کا مکمل اختیار دے یا پھر کسی خاص مصرف میں خرچ کرنے کا پابند بنائے،کیونکہ رفاہی اداروں کے لئے زکوة کی رقم کے مختلف مصارف ہوتے ہیں،لہذا کسی خاص مصرف کی تعیین کی وجہ سے عام طور پر کوئی مشکل نہیں ہوتی،اگر بالفرض کسی خاص مصرف کی تعیین کی وجہ سے کوئی مشکل ہو تو دینے والے کو اسی وقت اس کی وضاحت کردی جائے،پھر اس کی مرضی چاہے تو آپ کو مکمل اختیار دے خرچ کرنے کا یا خود اس مصرف میں خرچ کرے۔

حوالہ جات
الدر المختار مع رد المحتار: (269/2، ط: دار الفکر)
(قوله: لولده الفقير) وإذا كان ولدا صغيرا فلا بد من كونه فقيرا أيضا لأن الصغير يعد غنيا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لا يضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اه.
أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، وتلزم القربة كما صرحوا به، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل۔

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب