021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رفاہی ادارے کا احتیاطاً اموالِ زکوة کی تملیک کروانا
75375زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

“ٹرسٹ” اپنے طور پر کوشش کرتا ہے کہ زکوۃ کی رقم زکوۃ کے مصارف میں ہی خرچ ہو،نیز جس  پروجیکٹ کے لیے زکوۃ دی گئی ہو اسے اسی  پروجیکٹ  میں خرچ  کیاجائے ،لیکن زکوۃ وصدقاتِ واجبہ کی رقوم میں احتیاطا ًتملیک کا طریقہ بھی اختیار کرلیا جاتا ہے، تاکہ زکوۃ اور صدقات واجبہ  کی ادائیگی یقینی طور پر ہوسکے، “ٹرسٹ” نے100 سے زائدشرعی اعتبار سےمستحق لوگ رجسٹر ڈکیے ہوئے ہیں ، جن سے "مستحق رجسٹریشن فارم " اور اس کی  وکالت کی شق پر دستخط لے لیے جاتے ہیں، اسی طرح میڈیکل فارم  میں مستحق مریضوں سے  وکالت کی شق پر دستخط لے لیے جاتے ہیں(مستحق رجسٹریشن فارم اور میڈیکل کی درخواست  کی کاپیاں  استفتاء کے ساتھ لف ہیں)،کیا اس طرح تملیک کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ بہتر اور شفاف طریقہ کار یہ  ہے کہ اموالِ زکوة کو تملیک کا حیلہ اختیار کئے بغیر براہ ِراست حقیقی مصارف پر خرچ کیا جائے،اس لئے آپ کے ادارے کو حتی الوسع اسی کی کوشش کرنی چاہیے کہ اموال زکوة کو براہِ راست حقیقی مصارف پر خرچ کیا جائے،حیلہ تملیک بوقتِ ضرورت اور بقدر ضرورت اختیار کیا جائے،اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ:

صدقاتِ واجبہ کی وہ رقم جسے دینے والوں نے آپ کو کسی خاص مصرف میں خرچ کرنے کا پابند نہ بنایا ہو،اس کی مذکورہ طریقے کے ساتھ تملیک کرنا درست ہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار"(2/ 344):
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن.
وقدمنا أن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم.
(قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب