75376 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
درج بالا طریقہ تملیک کے بعد “ٹرسٹ” کے منتظم /نمائندہ (مستحقین کی طرف سے وصولی زکوۃ کےوکیل) کوزکوۃ کی رقم وصول ہوجانے یا بینک اکاؤنٹ میں زکوۃ کی رقم ٹرانسفر ہوجانے کے بعد دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجائے گی ؟
اگر زکوۃ ادا ہوگئی تو اب “ٹرسٹ” کا منتظم اس رقم کو زکوۃ کے متعین مصارف کے ساتھ ساتھ دیگر مصارف اور کارخیر میں بھی خرچ کرسکتا ہے؟ مثلاً اس سے تنخواہیں،مسجد کے یوٹیلیٹی بلز، تعمیرات اور آفس وغیرہ کے کرائے اد ا کیے جاسکتے ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ٹرسٹ کی جانب سے زکوة کی وصولی کے لئے متعین کئے گئے مستحق نمائندے کی جانب سے زکوة کی رقم وصول کرنے یا اس کے اکاؤنٹ میں زکوة کی رقم آجانے کے بعد زکوة دینے والے کی زکوة ادا ہوجائے گی اور اس کے بعد اس مستحق نمائندے کی رضامندی سے اس رقم کو مذکورہ بالا ایسے مدات میں استعمال کیا جاسکتا ہے جن میں تملیک نہ ہونے کی وجہ سے براہِ راست زکوة کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں۔
حوالہ جات
"الدر المختار"(2/ 344):
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره، ولو أذن فمات فإطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز وهو الوجه نهر (و) لا إلى (ثمن ما) أي قن (يعتق) لعدم التمليك وهو الركن.
وقدمنا أن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم".
قال العلامة ابن عابدین رحمہ اللہ: "(قوله ثم يأمره إلخ) ويكون له ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب بحر وفي التعبير بثم إشارة إلى أنه لو أمره أولا لا يجزئ؛ لأنه يكون وكيلا عنه في ذلك وفيه نظر؛ لأن المعتبر نية الدافع ولذا جازت وإن سماها قرضا أو هبة في الأصح كما قدمناه فافهم.
(قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
13/جمادی الثانیہ1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |