021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا ٹرسٹ کے نمائندے کا قبضہ تملیک کے لئے کافی ہوگا؟
75383زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کبھی کوئی مخیر  زکوۃ کی مد میں دیا جانے والا امدادی سامان “ٹرسٹ”  یا “ٹرسٹ” کےمستقل  نمائندے کو براہ ِراست  دینے  کے بجائے بذریعہ "بلٹی"  “ٹرسٹ” کی جانب سے متعین علاقے تک پہنچادیتا ہے،  “ٹرسٹ” کی جانب سے اس علاقے میں ایک عارضی نمائندہ بھی  متعین ہوتا ہے جس کے ذمےاس  سامان کی وصولی، ترسیل  ،تقسیم اور کوریج   ہوتی ہے ۔ کیا اس علاقائی نمائندے   کی وصولی بھی تملیک متصور ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شرعی لحاظ سے تملیک کا مطلب یہ ہے کہ آپ زکوة کی رقم کا کسی کو اس طور پر مالک بنادیں کہ مالک بننے کے بعد وہ اس حوالے سے مکمل آزاد ہو کہ وہ اس رقم کو جہاں چاہے خرچ کرسکے۔

چونکہ مذکورہ صورت میں علاقائی نمائندہ اس سامان پر قبضہ اسی نیت سے کرتا ہے کہ وہ اس سامان کو متعلقہ علاقے کے لوگوں میں تقسیم کرے گا،خود نہیں رکھ سکے گا،اس لیے اس نمائندے کے ذریعے تملیک صحیح نہیں ہوگی،تاہم اگر اسے اس سامان میں تصرف کا مکمل اختیار دے کر سامان پر قبضہ دیا جائے اور وہ اس وقت زکوة کا مستحق بھی ہوتو پھر اس نمائندے کے قبضے سے تملیک درست ہوجائے گی،اس کے بعد اگر وہ اپنی مرضی سے اس سامان کو متعلقہ علاقے کے لوگوں میں تقسیم کرے گا تو اسے اس سارے سامان کی تقسیم کا ثواب ملے گا۔

نیز یہ بات ذہن میں رہے کہ فقہاء کرام نے ایک بندے کو اتنا زیادہ مال دینے کو بھی مکروہ قرار دیا ہے جس کی وجہ سے وہ صاحب نصاب بن جائے،اس لئے مذکورہ صورت میں بہتر یہی ہے کہ تقسیم سے پہلے سروے کرالیا جائے اور پھر جو زکوة کے مستحقین ہوں ان کی مدد اموال زکوة سے کی جائے اور جو زکوة کے مستحق نہ ہوں ان کی مدد صدقات نافلہ سے کی جائے۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية "(1/ 188):
" والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصابا كذا في الزاهدي ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعدا، وإن دفعه جاز كذا في الهداية".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

13/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب