75387 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
زکوۃ کی مد میں سامان آیا اور “ٹرسٹ” کے نمائندے نے وصول کرلیا،لیکن اس سامان کی زیادہ ضرورت دوسرے علاقوں میں ہے، وہاں تک پہنچانے نقل وحمل (Transportation) کی لاگت بہت زیادہ ہے، اگر یہ سامان وصول کرنے کے بعد یہاں فروخت کردیں اور حاصل ہونے والی رقم سے زیادہ ضرورت مند علاقے میں خرید اری کرکے تقسیم کردیں توکیا شرعاً اس کی گنجائش ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عام حالات میں تو فقہاء نے ایک شہر کی زکوة دوسرے شہر منتقل کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے،لیکن دو صورتوں میں اجازت دی ہے ایک یہ کہ دوسرے شہر میں کوئی قریبی رشتہ دار ہو جو مستحق زکوة ہو اور دوسری یہ کہ دوسرے شہر کے لوگوں کو ضرورت زیادہ ہو۔
لہذا ضرورت زیادہ ہونے کی صورت میں اموال زکوة کو دوسرے شہروں میں منتقل کرنا جائز ہوگا۔
نیز انتقال پر آنے والے اخراجات سے بچنے کے لئے اس سامان کو فروخت کرکے اس سے حاصل ہونے والی قیمت کو مستحقین تک پہنچانے کی بھی اجازت ہے،جیسا کہ سابقہ سوال کے جواب میں اس کا ذکر آچکا ہے۔
حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 190):
"ويكره نقل الزكاة من بلد إلى بلد إلا أن ينقلها الإنسان إلى قرابته أو إلى قوم هم أحوج إليها من أهل بلده، ولو نقل إلى غيرهم أجزأه، وإن كان مكروها".
"البحر الرائق " (6/ 97):
"( قوله وكره نقلها إلى بلد آخر لغير قريب وأحوج ) أما الصحة فلإطلاق قوله تعالى { إنما الصدقات للفقراء } من غير قيد بالمكان ، وأما حديث معاذ المشهور { خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم } فلا ينفي الصحة ؛ لأن الضمير راجع إلى فقراء المسلمين لا إلى أهل اليمن ، أو لأنه ورد لبيان أنه عليه الصلاة والسلام لا طمع له في الصدقات ولأنه صح عنه أنه كان يقول لأهل اليمن { : ائتوني بخميس أو لبيس - وهما الصغار من الثياب - آخذه منكم في الصدقة مكان الشعير والذرة أهون عليكم } وخير لأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن كان في زمنه فهو تقرير ، وإن كان في زمن أبي بكر فذاك إجماع لسكوتهم عنه ، وعدم الكراهة في نقلها للقريب للجمع بين أجري الصدقة والصلة وللأحوج ؛ لأن المقصود منها سد خلة المحتاج فمن كان أحوج كان أولى ، وليس عدم الكراهة منحصرا في هاتين ؛ لأنه لو نقلها إلى فقير في بلد آخر أورع وأصلح كما فعل معاذ رضي الله عنه لا يكره".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
13/جمادی الثانیہ1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |