021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سواری پر فرض اور واجب نماز پڑھنا جائز نہیں
79001نماز کا بیانفرض نماز پانے کا بیان

سوال

کیا گاڑی پر فرض اور واجب نمازبھی  ادا کرسکتے ہیں یا صرف نفل پڑھنے کی اجازت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عام طور پر سواری میں قبلہ کی طرف رُخ ہونا، قیام، رکوع اور سجدہ کرنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ یہ سب چیزیں نماز میں فرض کا درجہ رکھتی ہیں، اس لیے اگر سواری پر یہ امور بجالانا مشکل ہو تو  ایسی صورت میں فرض اور واجب نماز پڑھنا جائز نہیں، چنانچہ روایات میں آتا ہےکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز ادا کرنے کا ارادہ فرماتے تو سواری سے نیچے اتر کرنماز پڑھتے، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں مذکورہے، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی معمول تھا کہ فرض اور وترنماز سواری سے نيچے  اتر کر ادا فرماتے تھے۔

البتہ آج کل چونکہ ایسی سواریاں بھی آ چکی ہیں کہ جن پر قیام، رکوع اور سجدہ کیا جا سکتا ہے، جیسے ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ، اس لیے اگر ایسی سواری ہو کہ جس پر قبلہ رخ ہونے کے ساتھ ساتھ قیام، رکوع اور سجود کیا جا سکتا ہو تو اس صورت میں سواری پرفرض نماز پڑھنا  بھی جائز ہے۔

حوالہ جات
صحيح البخاري (2/ 45، رقم الحديث: 1099) دار طوق النجاة:
عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، قال: حدثني جابر بن عبد الله، «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي على راحلته نحو المشرق، فإذا أراد أن يصلي المكتوبة نزل، فاستقبل القبلة»
 صحيح البخاري (1/ 89، رقم الحديث: 400) دار طوق النجاة:
 عن جابر بن عبد الله، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته، حيث توجهت فإذا أراد الفريضة نزل فاستقبل القبلة»
تحفة الفقهاء (1/ 156) دار الكتب العلمية، بيروت:
أما إذا كان قادرا على القيام فصلى قاعدا بركوع وسجود فإنه يجوز عند أبي حنيفة وقد أساء وعلى قولهما لا يجوز لأن القيام ركن فلا يسقط من غير عذروقول أبي حنيفة أرفق بالناس لأن الغالب في السفينة دوران الرأس فالحق بالمتحقق تيسيرا.
 بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 109) دار الكتب العلمية،بيروت:
(ولأبي) حنيفة ما روينا من حديث أنس - رضي الله عنه - وذكر الحسن بن زياد في كتابه بإسناده عن سويد بن غفلة أنه قال: سألت أبا بكر وعمر - رضي الله عنهما - عن الصلاة فيالسفينة فقالا: إن كانت جارية يصلي قاعدا، وإن كانت راسية يصلي قائما من غير فصل بين ما إذا قدر على القيام أو لا؛ ولأن سير السفينة سبب لدوران الرأس غالبا، والسبب يقوم مقام المسبب إذا كان في الوقوف على المسبب حرج، أو كان المسبب بحال يكون عدمه مع وجود السبب في غاية الندرة، فألحقوا النادر بالعدم، ولهذا أقام أبو حنيفة المباشرة الفاحشة مقام خروج المذي، لما أن عدم الخروج عند ذلك نادر ولا عبرة بالنادر، وههنا عدم دوران الرأس في غاية الندرة فسقط اعتباره وصار كالراكب على الدابة وهي تسير أنه يسقط القيام لتعذر القيام عليها غالبا، كذا هذا، والحديث محمول على الندب دون الوجوب.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

24/جمادى الاخرى 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب