021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سامان کے فروخت نہ ہونے پر واپسی کی شرط لگانے کا حکم
75692خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

اگر دکان دار ہول سیلر سے یہ  کہہ کر کچھ خریدے کہ اگر میرے پاس نہیں بکی تو میں واپس دے دوں گا تو ہول سیلر دکان دار کو یہ سہولت دے اور وہ چیز مہنگی بیچے تو کیسا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دکاندار کا خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ہول سیلر سے یہ کہنا کہ اگر میرے پاس یہ سامان نہیں بکا تو میں آپ کو واپس کر دوں گا دراصل ایک ایسی شرط ہے جو  دو وجوہات کی بنا پر فاسد ہے۔ ایک تو یہ  مقتضی عقد کے خلاف ہے اور  دوسرا اس میں  دکاندار کا فائدہ ہے۔ چنانچہ عقد  کے وقت اس طرح کی شرط لگانا  شرعا ناجائز ہے، لیکن چونکہ اس طرح خرید و فروخت کا آج کل عرف چل پڑا ہے اور اب یہ شرط  کسی قسم کے جھگڑے کی طرف بھی لے جانے والی نہیں ہے تو اس قسم  کا معاملہ کرنے کی گنجائش    ہے۔ چنانچہ اگر ہول سیلر  معاملہ کرتے وقت ہی یہ شرط منظور کر کے   سامان کی قیمت زیادہ مقرر کرے اور دکاندار اس طرح خرید نے پر راضی ہو تو پھر ہول سیلر کے لئے  اس سہولت کی  فراہمی کی  وجہ سے   سامان کو مہنگا فروخت کرنا جائز ہے ۔ البتہ معاملہ مکمل ہو جانے  اور ایک قیمت متعین ہو جانے کے بعد  قیمت میں زیادتی کرنا  ہول سیلر کے لئے جائز نہیں ہے۔

اس طرح شرط فاسد کے ساتھ معاملہ کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ عقد مکمل ہونے کے بعد آپس میں وعدہ کرلیں   کہ اگر سامان نہ بکا تو ہول سیلر  واپس لے گا، ہول سیلر  پراس وعدہ کو پورا کرنا  دیانۃً لازم ہو گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دکاندار سامان خریدتے وقت ایک مدت طے کر لے کہ مثلاً ایک مہینہ یا تین مہینے تک مجھے سامان واپس کرنے کا اختیار(خیار شرط) ہو گا، اگر میں چاہوں گا تو اس عرصہ میں مال  واپس  کر دوں گا۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع(5/ 172):
كما إذا اشترى نعلا على أن يحدوه البائع أو جرابا على أن يخرزه له خفا أو ينعل خفه والقياس أن لا يجوز، وهو قول زفر - رحمه الله - (وجه) القياس أن هذا شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد العاقدين وإنه مفسد كما إذا اشترى ثوبا بشرط أن يخيطه البائع له قميصا ونحو ذلك.(ولنا) أن الناس تعاملوا هذا الشرط في البيع كما تعاملوا الاستصناع فسقط القياس بتعامل الناس كما سقط في الاستصناع.
فقه البيوع علي ألمذاهب الأ ر بعة، ط: مكتبة  درالعلوم كراتشي (473،474):
ويشترط لصحة البيع: ألا يكون مشروطاً بشـرط فاسد:
أن يكون العقد مشروطاً بشرط لا يقتضيه العقد، فإن اشترط فيه مثل هذا الشرط، فسـد العقد. والفرق بين الشرط والتعليق: أن التعليق ترتيب أمر لم يوجد على أمر لم يوجد، والشـرط: التزام أمر لم يوجد في أمر وجد بصيغة مخصوصة. والأصل في هذا: ما روي عـن عبد الله بن عمرو ال : أن النبي ﷺ نهى عن الشرط في البيع. رواه أبو حنيفة وال عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده. وأخرجه الترمذي عنه بلفظ: لايحل سلف وبيع، ولا شرطان في بيع.
خلاصه مذهب الحنفية: أنه إن كان المشروط في البيع شرطاً يقتضيه العقد، أو يلائم العقد، أو شـرطاً جرى به العرف فيما بين الناس، فهو جائز، ولا يفسد به البيع.
ومثال الشرط الذي جرى به العرف: ما إذا اشترى نعلاً على أن ذوه البائع، أو جراباً على أن يخرزه له خفا، قال السرخسي الله في يسـوط: «وإن كان شـرطاً لا يقتضيه العقد، وفيه عرف ظاهر، فذلك جائز أيضاً، كما لو اشترى نعلاً وشراكاً بشـرط أن يحذوه البائع، لأن الثابت بالعرف ثابت بدليل شـرعي، ولأن في النزع عن العادة الظاهرة حرجاً بيناً.
و فيه أيضا (491):
البيع بشرط وجود من يشتريه من المشترى :وهناك طريق متبع في الأسواق أن من يريد أن يبيع أشياء إلى تاجر تلك الأشياء ، فإن التاجر لا يقبل أن يشتري منه فوراً ، بل يقول له : إنى أقبل أن تضعها عندى على أني إن وجدت مشترياً لها ، اشتريتها منك . ولواعتبر العقد بينهما عقد بيع مشروط بأن يجد المشترى مشترياً آخر منه ، ففيه عدة محظورات من الناحية الشرعية . منها أنه بيع بشرط مخالف لمقتضى العقد ، أو بيع معلق على شرط . ولكن هناك طريقان للوصول إلى هذا الغرض : الأول : أن يعير تلك الأشياء إلى التاجر ، ويجعله سمساراً لبيعها إلى المشترين لقاء عمولة يدفعها إلى التاجر . والثاني : أن بشتري التاجر منه تلك الأشياء بخيار شرط إلى مدة متفق عليها . فإن وجد مشترياً ، باعها إليه ، وينفذ به البيع الأول . وإن لم يجد مشترياً خلال المدة ، ردها إلى البائع الأول بخيار الشرط .

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۲۰،  جمادی الثانی  ۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب