021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گھر کے اخراجات کے بدلے گھر کا کچھ حصہ لینا
75612خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ، میاں ، بیوی  نے  پچیس پچیس لاکھ لگائے، اور بیٹے نے بھی پچیس لاکھ لگائے اور سب نے مل کر ایک گھر خریدا، تینوں اسی میں ایک ساتھ رہ رہے ہیں، بجلی ، گیس وغیرہ کے ہر طرح کے بلز بیٹا ادا کرتا ہے۔

کیا ان کا یہ طے کرنا درست ہے کہ  جب یہ گھر تقسیم کرنے کی نوبت آئے  تو یوٹیلیٹی بلز  کی رقم  میاں ،بیوی  کے گھر کے حصے سے منہا کر دئیے جائیں گے بیٹےکے حق میں۔

جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

وضاحت از مستفتی:  یہ پوچھنا مقصود ہے کہ  گھر کی  حسا اور حصا (حقیقتا)تقسیم کی صورت میں کیا بیٹے کے لیے

 یوٹیلیٹی بلز پر والدین کی طرف سے لگائی گئی اضافی رقم (جو کہ والدین پر قرض بنتی جا رہی ہے)کے بدلے  گھر کا اضافی حصہ لینا جائز ہے؟؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مشترکہ گھر کی  مشترکہ  رہائش کی صورت میں گھر کے یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی ماں ، باپ اور بیٹے  پر مشترکہ طور پر

  واجب  ہے، اور اگر اس مفاہمت کے ساتھ یوٹیلیٹی بلز کی  تمام  ادائیگی بیٹا اپنے پیسوں سے کر رہا ہے کہ  گھر کی تقسیم کے وقت  وہ ماں ، باپ کی طرف سے ادا کیے جانے والے بلز کی رقم کے بقدر  گھر میں سے اضافی حصہ وصول کر لے گا تو یہ بھی جائز ہے۔

البتہ اس صورت میں ضروری ہے کہ گھر کی تقسیم کے وقت  بیٹے کی طرف سے ادا کی جانے والی اضافی رقم کا حساب لگا کر اس  کے بقدر گھر کا حصہ  باقاعدہ   بیٹے کو فروخت کیا جائے ، اور خرید و فروخت کے اس معاملے سے  بیٹے پر لازم ہونے والی رقم کا  اس کی طرف سے بلز کی  ادا کی جانی والے اضافی رقم کے ساتھ مقاصہ (برابر سرابر )کر لیا جائے، اگر گھر کی تقسیم کے وقت بیٹے کی طرف سے ادا کی جانے والی اضافی رقم  کے بقدر گھر کا حصہ باقاعدہ بیٹے کو فروخت نہ کیا جائے  اور محض سابقہ مفاہمت ہی کے ذریعے  بیٹا اس گھر کو  لینا چاہے تو  اس  کے لیے یہ جائز نہ ہو گا اور محض سابقہ مفاہمت سے بیٹا  گھر کے اضافی حصے کا مالک نہیں بنے گا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 265)
 صح (بيع من عليه عشرة دراهم) دين (ممن هي له) أي من دائنه فصح بيعه منه (دينارا بها) اتفاقا، وتقع المقاصة بنفس العقد إذ لا ربا في دين سقط (أو) بيعه (بعشرة مطلقة) عن التقييد بدين عليه (إن دفع) البائع (الدينار) للمشتري (وتقاصا العشرة) الثمن (بالعشرة) الدين أيضا استحسانا.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۰ جمادی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب