021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سرکاری نوکری کے حصول کے لیے رشوت دینے کا حکم
75636جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

حکومتِ پاکستان نے ہماری زمین پر 2008ء میں اسکول بنایا ہے۔ کچھ وجوہات کی بیناد پر پچھلے چند سالوں سے پڑھائی نہیں ہو رہی تھی، اور اسکول سے کچھ فائدہ بر آمد نہیں ہوا۔ اب اس وقت حکومت اسکول میں لوگوں کی بھرتیاں کر رہی ہے۔ ان بھرتیوں میں ہمارا بھی حق بنتا ہے۔ لیکن حکومتی افسر بھرتی کے لیے دو لاکھ روپے مانگ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھرتی کے لیے یہ رقم دے سکتے ہیں یا نہیں؟  

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ یہ کلاس فور کی وہ نوکری ہے جو حکومت ان گھرانوں کو دیتی ہے جو اسکول کے لیے زمین دیتے ہیں، لیکن جو سرکاری افسر نوکری کا آرڈر وغیرہ دیتا ہے وہ پیسے مانگ رہا ہے۔ ہمارا علاقہ فاٹا میں واقع ہے، ہم سمیت تقریبا 12 افراد کی زمینوں پر اسکول بنے ہیں، ان سب کو یہ نوکریاں مل رہی ہیں، لیکن افسران نوکری دینے سے پہلے یہ پیسے مانگ رہے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نوکری کے حصول لیے رشوت لینا اور دینا سخت حرام اور ناجائز ہے، جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔ حدیث شریف میں رشوت دینے والے، لینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ رشوت کی روک تھام حکومت اور ہر محکمے کے ذمہ داران کا بنیادی فرض ہے، اگر وہ اپنی ذمہ داری درست طریقے پر پوری نہیں کریں گے تو قیامت کے دن ان سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی نوکری کا حق دار بن چکا ہو، لیکن رشوت دئیے بغیر اس کو اپنا  حق نہ مل رہا ہو تو ایسی مجبوری کی صورت میں اپنا حق حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کی گنجائش ہے، لیکن لینے والے کے لیے اس صورت میں بھی رشوت لینا سخت ناجائز اور حرام ہے۔

لہٰذا اگر سوال میں ذکر کردہ تفصیل درست ہے اور مذکورہ نوکری قانونی اعتبار سے آپ کا حق بن چکا ہے، لیکن متعلقہ افسر رشوت کے بغیر اس کا اجرا نہیں کر رہا، اور آپ کے لیے اپنا یہ حق کسی جائز تدبیر سے وصول کرنا بھی ممکن نہیں ہے، تو پیسے دے کر اپنا یہ حق حاصل کرنے کی گنجائش ہے، لیکن اس افسر کے لیے یہ پیسے لینا سخت حرام اور ناجائز ہے۔

حوالہ جات
المستدرك علی الصحیحین: (4/ 103):
عن ثوبان رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : لعن اللہ الراشي، والمرتشي، و الرائش الذی یمشی بینهما.
إعلاءالسنن(14/6635):
والحاصل:أن حد الرشوة هوما يؤخذ عماوجب علي الشخص سواءكان واجباًعلی العين أوعلی الكفاية وسواء كان واجباً حقاً للشرع كما في القاضي وأمثاله...أو كان واجباً عقداً كمن آجر نفسه لإقامة أمر من الأمور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم،أو عليهم كأعوان القاضى، وأهل الديوان وأمثالهم.
رد المحتار (5/ 72):
لو اضطر إلى دفع الرشوة لإحياء حقه جاز له الدفع وحرم على القابض.
رد المحتار (6/ 423):
قوله ( إذا خاف على دينه ) عبارة المجتبى لمن يخاف. وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة، يعنى في حق الدافع، اه.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

22/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب