021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت کمیٹی کا حکم
75601جنازے کےمسائلتعزیت کے احکام

سوال

ہمارے علاقے میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے اس مقصد کے لئے کہ جب کوئی فوت ہوتگی ہوجاتی ہے تو میت کے گھر والوں کے لئے طعام کا انتظام کیا جاتا ہے،یہ کمیٹی درج ذیل اصولوں پر بنائی گئی ہے:

1۔میت کے گھر والوں سے پیسے نہیں لئے جاتے۔

2۔پہلے سے فنڈ جمع نہیں کیا جاتا،بلکہ تعزیت ختم ہونے کے بعد اخراجات کو تقسیم کرکے میت کے ورثہ کے علاوہ باقی ارکان پر تقسیم کیا جاتا ہے۔

3۔تمام ارکان اپنی مرضی سے خدمت کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے کمیٹی میں شامل ہوکر پیسے دیتے ہیں۔

4۔کسی پر کوئی زبردستی نہیں کی جاتی،اگر کوئی کمیٹی میں شامل نہیں ہونا چاہتا تو اس کی مرضی ۔

5۔کمیٹی میں جو ارکان غریب ہیں یا ان کے گھر میں خدمت کے لئے کوئی مرد موجود نہیں ہے تو ان سے نہ پیسے لئے جاتے ہیں اور نہ ان سے خدمت لی جاتی ہے،اگر ان کے گھر میں فوتگی ہوجائے تو کمیٹی کے ارکان ان کا خرچہ اٹھاتے ہیں اور خدمت بھی کرتے ہیں۔

اب ہمارے علاقے میں چند علماء  تو اس کمیٹی کا حصہ ہیں،جبکہ چند ایک کو اس پر اعتراض ہے،برائے مہربانی راہنمائی فرماکر ثوابِ دارین حاصل کریں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ چونکہ کھانے کا انتظام میت کے ورثہ کے پیسوں سے نہیں ہوتا،بلکہ کمیٹی کے افراد کے پیسوں سے ہوتا ہے،تو آیا میت کے لواحقین کے علاوہ دیگر افراد کو اس کھانے کی اجازت ہوگی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کے لحاظ سے فوتگی کے موقع پر اہلِ میت کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اہل میت کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام کریں،لیکن چونکہ آج کل لوگ اس میں غفلت برتتے ہیں،اس لیے لوگوں کو سہولت کے لیے اس کا باقاعدہ نظم بنانا پڑتا ہے،تاکہ ایسے موقع پر پریشانی سے بچا جاسکے، لہذا اس مقصد کے لئے سوال میں ذکر کئے گئے طریقہ کار کے مطابق کمیٹی بنانے میں شرعا کوئی حرج نہیں۔

تاہم اس بات کا لحاظ رہے کہ فقہاء کرام رحمہم اللہ نے اس موقع پر اہلِ میت کے رشتہ داروں اور پڑوسیو ں كےليے اہلِ میت  كو  عام حالات میں صرف ایک دن اور ایک رات  کاکھانا کھلانا مستحب قرار دیاہے، کیونکہ اس دن اہل میت تجہیز و تکفین میں مشغول ہوتے ہیں، بلاضرورت دوسرے اور تیسرے دن کھانے کا انتظام شریعت سے ثابت نہیں،البتہ اگر رشتہ دار دوردراز سے آئے ہوں اور دوسرے یا تیسرے دن بھی ضرورت ہو تو بقدرِ ضرورت اس کی گنجائش ہوگی۔

حوالہ جات
" سنن الترمذي "(2/ 314):
 عن عبدﷲبن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر، قال النبي صلى ﷲ عليه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاما، فإنه قد جاءهم ما يشغلهم. هذا حديث حسن".
قال الملا علی القارئ رحمہ اللہ :" والمعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم فيحصل لهم الضرر وهم لا يشعرون قال الطيبي دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اه والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم وقيل يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية ثم إذا صنع لهم ما ذكر سن أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء أو لفرط جزع".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

25/جمادی الثانیہ1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب