021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کی ایک صورت کا حکم (سات بھتیجوں اور چاربھتیجیوں میں میراث کی تقسیم)
75802میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے تایا ابو فوت ہو گئے ہیں، ان کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔ ان کی اولاد بھی نہیں ہے۔ ان کے بھائی اور بہنیں بھی فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے ورثاء میں7 بھتیجے اور  4 بھتیجیاں زندہ ہیں۔  وراثت کس  طرح تقسیم ہو گی۔ ہر وارث کو  کتنا کتنا حصّہ ملے گا۔ تفصیل سے بتا دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ  میں میت کے کل   ترکہ سے تجہیز و تکفین کا خرچ نکالنے کے بعد اگر مرحوم  کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو اس قرض کی  ادائیگی کی جائے، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز  وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی تک اسے پورا کیا جائے۔ پھر جو ترکہ باقی  بچ جائے اس کے کل  7 حصے کئے جائیں  گے، جس میں سے ہر ایک بھتیجے کو ایک (1)حصّہ ملے گا ۔  فیصدی حساب سے ہر بھتیجے کو کل ترکہ کا 14.2857%فیصد حصّہ ملے گا۔  شرعی اصولوں کے مطابق بھتیجوں کے ہو تے ہوئے بھتیجیوں کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

حوالہ جات
حاشية ابن عابدين ، رد المحتار ط الحلبي(6/ 774):
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت)۔
وفيه أيضاً :(6/ 783)
أن ابن الأخ لا يعصب أخته كالعم لا يعصب أخته وابن العم لا يعصب أخته وابن المعتق لا يعصب أخته بل المال للذكر دون الأنثى لأنها من ذوي الأرحام قال في الرحبية: وليس ابن الأخ بالمعصب من مثله أو فوقه في النسب بخلاف ابن الابن وإن سفل فإنه يعصب من مثله أو فوقه ممن لم تكن ذات سهم۔

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

25، جمادی الثانی  1443 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب