021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نیم حکیم پر ضمان لازم ہونے اور نہ ہونے کی تفصیل
75714غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

میرے بھائی جو حکمت کے چوتھے یعنی آخری سال میں ہے، اس کو علاج معالجے کی اجازت نہیں تھی، اس کے دوست وغیرہ علاج کا کہتے تو وہ اللہ کی رضا کے لیے علاج کردیتا۔ ایک غریب دوست کی ساس کی طبیعت بہت خراب رہتی تھی، پیٹ میں پانی پڑنے کی بیماری تھی، اس دوست نے بھائی کو علاج کے لیے کہا، اس نے کہا بڑا مسئلہ ہے۔ دو تین دفعہ کہنے پر وہ چلا گیا، اس نے کچھ دوائیاں دیدیں کہ جگر کی سوزش ہے، ٹھیک ہوجائے گی، الٹرا ساؤنڈ نہیں کرایا کہ جگر کی سوزش ہے یا جگر سکڑ گیا ہے، اندازے سے دوا دی۔ وہ کچھ عرصہ ٹھیک رہی، پھر طبیعت بگڑ گئی اور اس کا انتقال ہوگیا۔  

اب میرا بھائی ہر وقت روتا رہتا ہے کہ مجھے علاج نہیں کرنا چاہیے تھا، بھائی نے ٹھنڈی دوائیاں دیں، مگر سینئر پروفیسر نے کہا کہ گرم دوائیاں دینی تھی۔ بھائی کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ اب بھائی کو غم کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوگیا کہ میں نے کیوں علاج کیا۔ کسی نے اس کو سورۃ النساء آیت نمبر 93 کا ترجمہ و تفسیر سنائی کہ ایسے شخص سے مرنے سے پہلے کلمہ بھی چھن جاتا ہے، یہ غلطی قتلِ عمد میں آئے گی یا قتلِ خطأ میں۔ میں جب یہ سوال لکھ رہا ہوں تو بھائی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہاسپٹل میں داخل ہے، خطرے سے باہر ہے، حدیث سناتا رہتا ہے کہ علم طب حاصل نہ کیا اور علاج کیا تو وہ خود ذمہ دار ہے۔ اسے کچھ علمِ طب معلوم ہے، کچھ نہیں، پیٹ میں پانی پڑنے کی بیماری کے علاج کے حوالے سے زیادہ معلوم نہیں تھا۔

جن کی عورت انتقال کرگئی ہے، ان سے میں نے کہا کہ علاج میں بھائی سے شدید غلطی ہوئی ہے، آپ صاحبان معاف کردیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی رضا کی خاطر دونوں جہانوں میں معاف کیا۔  

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ قتلِ عمد ہے یا قتلِ خطأ؟ اس نے علاج اچھی نیت سے کیا تھا۔ نیز دیت، کفارہ وغیرہ کا حکم بھی بتادیں۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ میرے بھائی نے ایک دفعہ اس خاتون کو دوا دی تو وہ تقریبا بیس دن تک ٹھیک رہی، پھر اس کی طبیعت بگڑی تو انہوں نے فون کیا، اس نے فون پر ہی دوا تجویز کی جو انہوں نے اسے دی، اس کے تقریبا دس دن بعد خاتون کا انتقال ہوا۔ خاتون کے انتقال کے بعد میں نے اس کے داماد سے ساری صورتِ حال کا ذکر کیا، اس نے کہا ہم نے اللہ کے لیے معاف کیا ہے۔ میرے بھائی نے خاتون کے ایک بیٹے کو تفصیل بتادی، اس نے بھی بتایا کہ  ہم نے معاف کردیا ہے۔ میں نے اس خاتون کے شوہر کو چائے پر بلایا اور ان کو ساری تفصیل بتادی کہ میرے بھائی سے شدید غلطی ہوئی ہے، اب آپ انہیں معاف کرلیں تاکہ انہیں اطمینان آجائے، تو اس نے بتایا کہ ہم معاف کردیا ہے، اس کا ایک وقت مقرر تھا، اگر وہ اس وقت آغاخان ہاسپٹل میں بھی ہوتی تو فوت ہوجاتی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ جو شخص نہ کسی طبی ادارے کا سند یافتہ  ہو، نہ اسے قانونا علاج کرنے کی اجازت ہو، ایسے شخص کا علاج معالجہ کو بطورِ پیشہ اختیار کرنا جائز نہیں۔  اگر ایسے شخص نے کسی کا ایسا علاج کیا جس میں اس کے اعضا و جوارح کا دخل ہو، مثلا آپریشن کیا، انجکشن لگایا، یا دوائی مریض کے منہ میں ڈالی  اور اس کی وجہ سے مریض کا انتقال ہوا تو یہ قتل، قتلِ خطأ میں داخل ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ علاج کرنے والے کے عاقلہ پر دیت لازم ہوگی، خود اس پر کفارہ (دو مہینے لگاتار روزے رکھنا) لازم ہوگا، اور اگر یہ علاج کرنے والا  مرنے والے کا وارث بنتا ہو (مثلا ایسے شخص نے اپنے والد کا علاج کیا جس سے وہ مرگیا) تو یہ میراث سے بھی محروم ہوگا۔ لیکن اگر علاج میں اس کے اعضا و جوارح کا دخل نہ ہو، بلکہ اس نے مریض کو دوا دیدی جو مریض نے خود استعمال کی، یا اس نے دوا لکھ کر یا زبانی بتاکر لینے کا کہا، پھر مریض نے دوا خود استعمال کی اور اس کی وجہ سے مرگیا، تو اس صورت میں علاج کرنے والے پر دیت، کفارہ اور میراث سے محرومی کے احکام تو لاگو نہیں ہوں گے، لیکن چونکہ قانونی اجازت اور مطلوبہ مہارت کے بغیر علاج کرنا تعدی میں داخل ہے، اس لیے وہ نقصان کا سبب بننے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، جس کے لیے اس پر استغفار لازم ہوگا، اور حاکم اسے حسبِ مصلحت تعزیری سزا دے بھی سکتا ہے۔  

صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے بھائی قانوناً علاج کے مجاز نہیں تھے، نہ ہی اس کا علاج کرنے کا تجربہ تھا تو اس کے لیے کسی کا علاج کرنا جائز نہیں تھا، تاہم چونکہ اس نے مریض کو دوا فون پر بتائی تھی، پھر مریض نے خود دوا استعمال کی جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی، اس لیے آپ کا بھائی شرعا قاتل شمار نہیں ہوگا، اس پر دیت، کفارۂ قتل اور سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں بیان کردہ حکم لاگو نہیں ہوگا، بالخصوص جبکہ فوت ہونے والی خاتون کے شوہر اور بیٹے نے اسے معاف کردیا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 93 میں بیان کردہ سزا، قتلِ عمد یعنی کسی کو قصدا قتل کرنے کی ہے۔  اب آپ کے بھائی پر لازم ہے کہ وہ اس بے احتیاطی پر توبہ و استغفار کرے، آئندہ انتہائی احتیاط  سے کام لے، اور جب تک اس کو علاج کا تجربہ اور قانونا اجازت نہ ہو، اس وقت تک کسی کا  علاج نہ کرے۔  

(باستفادۃٍ من احسن الفتاویٰ: 8/ 518-517)

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا } [النساء: 93]
سنن أبى داود (4/ 321):
حدثنا محمد بن العلاء حدثنا حفص حدثنا عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز حدثنى بعض الوفد الذين قدموا على أبى قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « أيما طبيب تطبب على قوم لا يعرف له تطبب قبل ذلك فأَعنَتَ فهو ضامن ».
قال عبد العزيز: أما إنه ليس بالنعت، إنما هو قطع العروق والبط والكى.
بذل المجهود (18/107-106):
قال الخطابی: و لا أعلم خلا فی أن المعالج إذا تعدی فتلف المریض کان ضامنا، و المتعاطی علما أو عملا لا یعرفه متعد، فإذا تولد من فعله التلف ضمن الدیة و سقط عنه القود؛ لأنه لا یستبد بذلك دون إذن المریض. و جنایة الطبیب فی قول عامة الفقهاء علی عاقلته…….. (أما إنه لیس بالنعت) أی حکم الضمان لیس بالوصف باللسان، و کذا حکم الکتابة، فإنه إذا وصف الدواء لإنسان فعمل بالمریض فهلك لا یلزم الطبیب الدیة (إنما هو) أی حکم الضمان (قطع العروق) أی الشق (و الکی) بالنار. حاصله أن الطبیب إذا عالج بشئ من المعالجة بیده، مثلا قطع العرق أو شق الجلد أو کواه بمکواة أو سقاه بیده فأوجر فی فیه فتلف فهو جنایة یلزمه الدیة، و أما إذا وصف له الدواء و بینه للمریض فأکل المریض بیده فلا ضمان فیهو کتب مولانا محمد یحی المرحوم فی التقریر: قوله "و لیس بالنعت" یعنی بذلك أنه لم یرد بالطبیب ما اشتهر فیه هذا اللفظ من المعالج الخاص، بل هو عام لکل من یأتی منه مثل ذلك کأکل و نحوه، انتهی.
فيض القدير (6/ 137):
(من تطبب ولم يعلم منه طب) أي من تعاطى الطب ولم يسبق له تجربة ، ولفظ التفعل يدل على تكلف الشئ والدخول فيه بكلفة ككونه ليس من أهله (فهو ضامن) لمن طبه بالدية إن مات بسببه لتهوره بإقدامه على ما يقتل، ومن سبق له تجربة وإتقان لعلم الطب بأخذه عن أهله فطب وبذل الجهد
الصناعي فلا ضمان عليه.
مرقاة المفاتيح (7/ 62):
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله وفي نسخة عن رسول الله قال: "من تطبب" بتشديد الموحدة الأولى أي تعاطي علم الطب وعالج مريضا "ولم يعلم منه طب" أي معالجة
صحيحة غالبة على الخطأ، فأخطأ في طبه وأتلف شيئا من المريض "فهو ضامن".  
قال بعض علمائنا من الشراح؛ لأنه تولد من فعله الهلاك، وهو متعد فيه؛ إذ لا يعرف ذلك فتكون جنايته مضمونة على عاقلته. وقال ابن الملك: قوله "و لم یعلم منه طب" أی لم یکن مشهورا به فمات المریض من فعله فهو ضامن أی تضمن عاقلته الدیة اتفاقا، و لا قود علیه؛ لأنه لایستبد بذلك بدون إذن المریض فیکون حکمه  حکم الخطأ. و قال الخطابی: لا أعلم خلافا فی أن المعالج إذا تعدی فتلف المریض کان ضامنا، و المتعاطی بعمل لایعرفه متعد، فیضمن الدیة و لا قود؛ لأنه لا یستبد دون إذن المریض، و جنایة الطبیب عند عامة الفقهاء علی العاقلة.
فتاوى قاضي خان (3/ 401):
قال أبو حنيفة رحمه الله : لا يحجر القاضي على الحر العاقل البالغ إلا على من يتعدى ضرره إلی العامة وهم ثلاثة: (1) المتطبب الجاهل الذي يسقي الناس ما يضره ويهلكه وعنده أنه شفاء و دواء. (2) والثاني:  المفتي الماجن الذي يعلّم الناس الحيل أو يفتي عن جهل. (3) والثالث المكاري المفلس…….. وعند صاحبيه رحمهما الله تعالى يجوز الحجر بما قال أبو حنيفة رحمه الله، و بثلاثة أسباب أخر.
رد المحتار (6/ 147):
قوله ( وطبيب جاهل ) بأن يسقيهم دواء مهلكا وإذا قوي عليهم لا يقدر على إزالة ضرره، زيلعي……فمنع هؤلاء المفسدين للأديان والأبدان والأموال دفع إضرار بالخاص والعام، فهو من الأمر بالمعروف و النهي عن المنكر كما في القهستاني وغيره.
الأصل للشيباني ط قطر (6/ 583):
ولو سقى رجل رجلاً سما، أو أوجره إياه إيجاراً، فقتله، لم يكن عليه القصاص، وكان  على عاقلته الدية. ولو كان أعطاه إياه فشربه هو لم يكن عليه فيه شيء، ولا شيء على عاقلته، مِن قِبَل أنه شربه هو.
المبسوط للشيباني (4/ 509):
ولو سقي رجل رجلا سما أو أوجره إياه إيجارا فقتله لم يكن عليه القصاص، فكان على عاقلته الدية، ولو كان أعطاه إياه فشربه هو لم يكن عليه فيه شيء ولا شيء على عاقلته من قبل أنه شربه هو.
المبسوط للسرخسي (26/ 280):
ولو سقى رجلا سما أو أوجره إيجارا فقتله لم يكن عليه قصاص والدية على عاقلته، وفي بعض النسخ قال: سقاه سما أو أوجره إيجارا فقد صار متلفا له، وهذا هو الأصح؛ لأنه إذا دفعه إليه حتى شرب بنفسه لم يضمن شيئا؛ لأن الشارب مختار به في شربه فيكون قاتلا نفسه، ومن أعطاه غره حين لم يخبره بما فيه من السم، ولكن بالغرور لا يجب عليه ضمان النفس. والأصل فيه أن اليهودية حين أتت بالشاة المسمومة هدية إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكل من ذلك بشر بن البراء فمات ثم لم يضمنها رسول الله صلى الله عليه وسلم ديته لأن تناوله باختياره.  فأما إذا أوجره إيجارا فقد صار متلفا له فيكون ضامنا ديته. وقيل: هذا إذا كان سما قد يقتل وقد لا يقتل فيكون ذلك بمنزلة الخطأ، فأما إذا كان سما ذعافا يعلم أنه يقتله لا محالة؛ فإنه يجب عليه القصاص عند أبي يوسف ومحمد بمنزلة ما تقدم من الفعل الذي لا يلبث.
فتاوى قاضي خان (3/ 270):
و لو سقاه سما حتى مات فهو على وجهين: إن دفع إليه السم حتى أكل و لم يعلم به فمات لا قصاص فيه و لا دية لكن يحبس و يعزر،  و لو أوجره إيجارا تجب الدية على عاقلته و إن دفع إليه في شربه فشرب فمات لا تجب الدية لأنه شرب باختياره، إلا أن الدافع خدعه فلا يجب فيه إلا التعزير و الاستغفار.
البحر الرائق (8/ 335)
وإذا سقى رجلا سما فمات من ذلك فهو على ثلاثة أوجه: إما أن يكون أوجره على كره، أو أكرهه على شربه حتى شرب، أو ناوله وشربه من غير أن يكرهه عليه.  فإن أوجره إيجارا أو ناوله وأكرهه على شربه حتى شرب فلا قصاص وعلى عاقلته الدية.  وفي الذخيرة ذكر المسألة في الأصل مطلقا من غير خلاف ولم يفصل بين ما إذا كان مقدرا يقتل مثله غالبا أو لا يقتل، وهذا الجواب لا يشكل على قول أبي حنيفة ،وذلك لأن القتل حصل بحال لا يخرج لا من حيث الحقيقة ولا من حيث الاعتبار فكان خطأ العمد على مذهبه، وأما على قول أبي يوسف ومحمد فمن مشايخنا من قال الجواب عندهما على التفصيل إن كان ما أوجره من السم مقدار ما يقتل مثله غالبا كان عمدا محضا، وإن كان قدرا لا يقتل مثله غالبا فإنه يكون خطأ العمد، ومن مشايخنا من قال بأنه على قولهم جميعا يكون خطأ العمد سواء كان مما يقتل مثله غالبا أو لا يقتل، وكان كمن أوجر رجلا سقمونيا لا تحتمله النفوس فمات لا يكون عمدا محضا، وإذا تناوله فشرب من غير أن أكره لم يكن عليه قصاص ولا دية سواء علم الشارب بكونه سما أو لم يعلم.  وفي الخانية لا قصاص عليه ولا دية؛ لأنه شرب باختياره إلا أن الدافع خدعه فلا يجب عليه إلا التعزير والاستغفار.
الدر المختار (6/ 542)
(سقاه سما حتى مات إن دفعه إليه حتى أكله ولم يعلم به فمات لا قصاص ولا دية لكنه يجبس ويعزر ولو أوجره) السم (إيجارا تجب الدية) على عاقلته (وإن دفعه له في شربة فشربه ومات) منه (فكالأول) لأنه شرب منه باختياره إلا أن الدفع خدعة فلا يلزم إلا التعزير والاستغفار، خانية.
رد المحتار (6/ 542):
قوله ( لا قصاص ولا دية ) ويرث منه هندية ط. قوله ( حتى أكله ) أي باختياره، والأولى حتى شربه. قوله ( ولو أوجره الخ ) أي صبه في حلقه على كره، وكذا لو ناوله وأكرهه على شربه حتى شرب فلا قصاص وعلى عاقلته الدية، تاترخانية.  ثم قال: وفي الذخيرة ذكر المسألة في الأصل مطلقا بلا خلاف ولم يفصل، ولا يشكل على قول أبي حنيفة؛ لأن القتل حصل بما لا يجرح فكان خطأ العمد على مذهبه، وأما على قولهما فمنهم من قال: عندهما على التفصيل، إن كان ما أوجر من السم مقدارا يقتل مثله غالبا فهو عمد وإلا فخطأ العمد، ومنهم من قال: إنه على قولهم جميعا خطأ العمد مطلقا اه،  ملخصا. ذكر السائحاني أن شيخه أبا السعود ذكر في باب قطع الطريق أنه لو قتل بالسم قيل: يجب القصاص؛ لأنه يعمل عمل النار والسكين، ورجحه السمرقندي ا هـ، أي إذا أوجره أو أكرهه على شربه كما لا يخفى. قوله ( فلا يلزم إلا التعزير والاستغفار ) أي لارتكابه معصية بتسببه لقتل النفس.
البحر الرائق (8/ 392):
 وفي جامع الفتاوي وفي نوادر رستم:  امرأة شربت دواء لتسقط ولدها عمدا فألقت جنينا حيا ثم مات فعلى العاقلة الدیة ولا ترث منه شيئا وعليها الكفارة، وإن ألقت جنينا ميتا فعلى عاقلتها غرة ولا ترث منه شيئا وعليها الكفارة. وقال أبو بكر في هذه الصورة إنها إذا أسقطت سقطا ليس عليها إلا التوبة والاستغفار، وإن كان جنينا فعليها غرة، وتأويله إذا شربت دواء يوجب سقوط الولد وتعمدت ذلك.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

26/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب