021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
راستے میں سونے کی انگوٹھی کا ملنا
76130جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   راستے سے سونے کی قیمتی انگوٹھی مل جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

راستے سے ملی ہوئی انگوٹھی "لقطہ" (گری پڑی چیز) کے حکم میں ہے، لہذا ضروری ہے کہ مناسب مدت تک (جب تک یہ خیال ہو کہ وہ شخص اپنی گمشدہ چیز کی تلاش میں ہوگا) اس چیز کی تشہیر کی جائے، اگر اس کا مالک مل جائے، تو اسے اس کی چیز  لوٹا دی جائے، لیکن اگر اتنی مدت تک اس کے مالک کا پتہ نہ چلے، تو پھر اختیار ہوگا، چاہیں تو اسے اپنے پاس محفوظ رکھیں، یا چاہیں تو وہ چیز اصل مالک کی طرف سے کسی غریب مستحق زکوٰۃ کو صدقہ کردیں، بہتر ہے کہ اس پر دو گواہ بھی بنا لیے جائیں۔  اگر اس چیز کو اٹھانے والا غریب  و مستحق زکوٰۃ ہو، تو وہ خود بھی رکھ سکتا ہے۔ نیز بعد میں اگر اس چیز کا مالک آجائے، تو اسے اختیار ہوگا، چاہے تو اپنی چیز واپس لے لے یا اس کی طرف سے کیے گئے صدقہ پر راضی ہو جائے اور اجر وثواب حاصل کرے۔

حوالہ جات
لمافي سنن الدار قطني :
عن أبي هريرة  رضی اللہ عنہ   قال: قال رسول اللہ   صلى اللہ  عليه وسلم وسئل ‌عن ‌اللقطة ، فقال:  لا تحل اللقطة ، من التقط شيئا فليعرفه سنة، فإن جاءه صاحبها فليردها إليه، وإن لم يأت صاحبها فليتصدق بها ، وإن جاءه فليخيره بين الآخر وبين الذي له.( حدیث نمبر: 4389)
و قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:
فإن أشهد عليه  بأنه أخذه ليرده على ربه، ويكفيه أن يقول من سمعتموه ينشد لقطة، فدلوه علي. وعرف  أي نادى عليها حيث وجدها. وفي الجامع : إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها ،أو أنها تفسد، إن بقيت كالأطعمة  والثمار  كانت أمانة  لم تضمن بلا تعد..... فينتفع  الرافع  بها لو فقيرا،  وإلا تصدق بها على فقير.... فإن جاء مالكها  بعد التصدق  خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها  وله ثوابها  أو تضمينه.   (الدر المختار: 4/278)
و فی الھندیۃ:  إذا رفع اللقطة يعرفها فيقول: التقطت لقطة، أو وجدت ضالة، أو عندي شيء فمن سمعتموه يطلب دلوه علي، كذا في فتاوى قاضي خان. ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح...... ثم بعد تعريف المدة المذكورة، الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة، وبين أن يتصدق بها. فإن جاء صاحبها  فأمضى الصدقة، يكون له ثوابها، وإن لم يمضها، ضمن الملتقط.(2/289)

عبدالعظیم

دارالافتاء، جامعۃالرشید ،کراچی

26/جمادی الثانیہ    1443 ھ               

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالعظیم بن راحب خشک

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب