021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بازاری قیمت سےزیادہ پرادہارخریدنااورآگےکم قیمت پرفروخت کرنا
75639خرید و فروخت کے احکامبیع کی مختلف اقسام ، بیع وفا، بیع عینہ اور بیع استجرار کا بیان

سوال

ایک شخص مثلاسلمان کونقدکی ضرورت ہےمگراسکو کوئی بلاعوض دینےکوتیارنہیں سلمان اپنےجاننےوالے ایک کپڑےکےدکانداریارکشہ شوروم والےکےپاس جاکریہ ڈیلنگ کرتاہےکہ میں آپ سےنسیئہ  دولاکھ کاسامان خریدوں گااورپھرآپ کوایک لاکھ نوےہزارکابیچ دوں گاتویہ ربوا ہونےکی وجہ سےحرام ہےالبتہ اگرکوئی کہےمیں خود آپ سےنہیں خریدوں گابلکہ فلاںشخص مثلاحذیفہ تم سےکپڑےیارکشہ بیع معجل(نقدی)کےطورپرمثلا (دولاکھ)کے خریدیگااورپھرمیں سلمان اس رکشہ یاکپڑوں کوحذیفہ سےبیع موجل یعنی قسطوں پرمع منافع کےمثلا (تین لاکھ) پر خریدکرواپس تمھیں دکانداریاشوروم والا کوکم قیمت (مثلا ایک لاکھ نوےہزار) پرنقدی فروخت کردونگا۔یوں سلمان جسےقرض کی ضرورت تھی نقدپیسےلیکر اپنی ضرورت پوری کردیگا۔

دوسری صورت یہ کہ جس جاننےوالےدکاندار یاشوروم سےاولایہ مال حذیفہ نےخریداہے اس کےعلاوہ کسی فرد ثالث سےاس طرح ڈیلنگ کرےکہ میں حذیفہ سےکپڑےیارکشہ خریدکرتمہیں کم نقدی پرفروخت کردونگا۔

خلاصۃ المسألہ:یہاں تین معاملات ہوےہیں :

1:دکانداراورحذیفہ کےدرمیان نقدی) 200000)

2:حذیفہ اورسلمان مستقرض کےدرمیان قسطوں پرمع منافع کے(300000)

3:سلمان اوردکانداریافرد ثالث کےدرمیان کم نقدی پر190000)

معاملہ ثانیہ کا{حذیفہ اورسلمان کےدرمیان قسطوں کےمع المنافع} حکم مطلوب ہےکہ یہ منافع جائزبلاکراہت یامع الکراہت یاناجائزہے؟

مسئلہ سےمتعلق چند وضاحتیں :

1:سلمان حذیفہ سےقرض لینےنہیں گیاتھابلکہ وہ دکانداریاشوروم والےکےپاس گیاتھا

2:تمام معاملات میں قبضہ متحقق ہے

3:سلمان مستقرض پہلےسےجاننےوالےوالےدکانداریاشوروم یافرد ثالث سےان تمام معاملات کی منصوبہ بندی کرتاہےپھراس کےبعدیہ تمام معاملات طےپاتےہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگردومعاملےالگ الگ ہوں،ایک معاملےکادوسرےمعاملےسےکوئی تعلق نہ ہو،اوردونوں معاملےشرعابھی درست ہوں،مثلاایک شخص(زید)کوایک لاکھ کی ضررت ہے،اوراسےقرض دینےکےلئےکوئی تیارنہیں تووہ دوسرےشخص(بکر)سےکوئی چیزبازاری نرخ سےزیادہ(مثلاایک لاکھ کی  چیزایک لاکھ بیس ہزارپر) ادہارمیں خرید لیتاہےاوراس کےبعدزیدتیسرےشخص(سہیل)کوبازاری نرخ سےکم پر(نوےہزارکی)فروخت کردیتاہے،جس کا پہلےوالے فروخت کنندہ سےبراہ راست یابالواسطہ کوئی تعلق نہ ہو توتب اس طرح سے معاملہ کرناجائزہےاور اسےفقہ کی اصطلاح میں "تورق" کہاجاتاہے۔

جہاں تک صورت مسئولہ کی بات ہےتویہ بھی "تورق"ہی کی صورت ہے،مگر"تورق" کاجائزہونااس شرط کے ساتھ مشروط ہےکہ اس کےساتھ دوسرےاحوال نہ ملےہوئےہوں،اگرکوئی دوسرےاحوال مل جائیں توبعض اوقات "تورق" کامعاملہ کرناجائزتوہوتاہےمگرخلاف اولی ہوجاتاہے،مثلاجب فروخت کنندہ کویہ معلوم ہوکہ خریدار پیسوں کاضرورت مندہےاورپیسوں ہی کی وجہ سے وہ مجبورایہ معاملہ کررہاہےتو پھرافضل یہ ہےکہ اسےقر ض حسنہ (جس کی فضیلت بھی ہے)دےدیاجائے،اسی طرح بائع کواگریہ معلوم ہوجائےکہ خریدارتجارتی غرض سےیہ معاملہ کررہاہےاوراس کامقصد"سرمایہ کاری" کےلیےپیسےحاصل کرناہےتوپھر"تورق" کےبجائےافضل یہ ہےکہ اس کےساتھ{شرکت}یا{مضاربت} کامعاملہ کیاجائے،اوربعض اوقات دوسرےاحوال مل جانےسے"تورق" کا معاملہ کرنامکروہ یا ناجائز ہوجاتاہے،جیسے صورت مسئولہ میں سلمان کاحذیفہ سےادہارخریدنےسےپہلےایک دکاندار سےجاکرمنصوبہ بندی کرنا،اوراس کواس معاملےسےپہلےسےجوڑنا،یہ "تورق" کےجوازکےخلاف ہے،لہذاصورت مسئولہ کےمطابق معاملہ کرناجائزنہیں ہے،ہاں اگراس صورت میں سلمان تیسرےشخص جوکہ یہاں دکانداربن رہا ہے اس سے پہلےکوئی منصوبہ بندی نہ کرےبلکہ پہلےحذیفہ سےمعاملہ کرےاوراس کےبعدکسی تیسرےشخص کوجاکر نقد فروخت کردے،جس کاپہلےوالےمعاملےسےکسی قسم کاتعلق نہ ہو، توپھروہ معاملہ بلاکراہت جائزہوگا۔

حوالہ جات
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (5/ 326):
ثم قال في الفتح ما حاصله: إن الذي يقع في قلبي أنه إن فعلت صورة يعود فيها إلى البائع جميع ما أخرجه أو بعضه كعود الثوب إليه في الصورة المارة وكعود الخمسة في صورة إقراض الخمسة عشر فيكره يعني تحريما، فإن لم يعد كما إذا باعه المديون في السوق فلا كراهة فيه بل خلاف الأولى، فإن الأجل قابله قسط من الثمن، والقرض غير واجب عليه دائما بل هو مندوب وما لم ترجع إليه العين التي خرجت منه لا يسمى بيع العينة؛ لأنه من العين المسترجعة لا العين مطلقا وإلا فكل بيع بيع العينة اهـ، ‌وأقره ‌في ‌البحر والنهر والشرنبلالية وهو ظاهر، وجعله السيد أبو السعود محمل قول أبي يوسف، وحمل قول محمد والحديث على صورة العود
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (3/ 208):
‌وقال ‌بعضهم تفسيرها أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلم إليه ثم يبيع المستقرض من الثالث الذي أدخلاه بينهما بعشرة ويسلم الثوب إليه ثم إن الثالث يبيع الثوب من صاحب الثوب وهو المقرض بعشرة ويسلم الثوب إليه ويأخذ منه العشرة ويدفعها إلى طالب القرض فيحصل لطالب القرض عشرة دراهم ويحصل لصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما كذا في المحيط وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - العينة جائزة مأجور من عمل بها كذا في مختار الفتاوى
قرارات  اسلامی فقہ اکیڈمی ص :۳۲۱،۳۲۲
ثالثا:جوازھذالبیع مشروط بان لایبیع المشتری السلعۃ بثمن اقل ممااشتراھابہعلی بائعھاالاول لامباشرۃ ولابالواسطۃ،فان فعل فقد وقعا فی بیع العینۃ المحرم شرعا،لاشتمالہ علی حیلۃ الربا، فصارعقدامحرما۔

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۷جمادی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب