021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روایت«انا مدينة العلم وعلي بابها» کی تحقیق
79281حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا«أنا مدينة العلم وعلي بابها»  یہ روایت کافی مشہور ہے، سوال یہ ہے  کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی روایت  کتبِ حدیث میں مختلف طرق اور مختلف الفاظ سے مروی ہے،  بعض طرق میں "أنا مدينة العلم وعلي بابها "، بعض میں مدينة العلم  کی بجائے"أنا دار الحکمة" بعض میں" أنا  مدينة الحکمة" اور بعض طرق میں " أنا  مدينة الفقه"کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، لیکن معنوی اعتبار سے یہ تمام طرق ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں۔ان میں سے اکثر طرق کو علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة"  میں نقل کیا ہے، جہاں تک ان طرق کی اسنادی حیثیت کا تعلق ہے تو اس  میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے دو قول ہیں:

پہلا قول:

پہلا قول متقدمین میں سے جمہور محدثین کرام رحمہم اللہ کا ہے، جمہور محدثین نے اس روایت کے تمام طرق کو متکلم فیہ قرار دے کر ثابت نہیں مانا، امام ابوحاتم رازی، یحی بن سعید قطان، علامہ عقیلی اور علامہ ابن شاہین رحمہما اللہ نے اس روایت پر"ليس له أصل"کا حکم لگایا، امام ترمذی رحمہ اللہ نے  علل کبیر میں امام بخاری رحمہ اللہ سے "لم یعرفہ وٲنکر هذا الحدیث" کے الفاظ نقل کیے ہیں، علامہ دارقطنی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ روایت"أنا مدينة العلم وعلي بابها "  کوابوالصلت نامی راوی نے وضع کیا ہے، اگرچہ علامہ دارقطنی رحمہ اللہ نے صیغہٴ  تمریض یعنی قیل کے ساتھ اس بات کو ذکر کیا ہے۔ علامہ ابن جوزی  اور حافظ ذہبی رحمہما اللہ نے اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا، علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے" إنه لیس له وجه صحیح" فرمایا، امام ترمذی رحمہ اللہ نے "أنا دار الحکمة وعلي بابها" والے طریق کو نقل کرکے اس پر منکر ہونے کا حکم لگایا اور محدثینِ کرام کے نزدیک منکر کا لفظ موضوع  روایات كے ليے بھی استعمال ہوتا ہے، چنانچہ شیخ ابوغدہ صاحب رحمہ اللہ نے "الموقظة" للذہبی پر تعلیقات میں فرمایا:"كثر منهم إطلاق المنكر على الحديث الموضوع" اسی لیے امام ترمذی    رحمہ اللہ نے لفظ منکر اپنی جامع میں جن جگہوں پر استعمال کیا ہے  ان میں سے بعض مقامات پر بعد کے ائمہ کرام رحمہم اللہ  نے اُس روایت کی سند میں موجود راوی پر شدید ضعف یا وضع کا حکم بھی لگایا ہے، چنانچہ روایت "عن حمزة عن أبي الزبير عن جابر مرفوعاً إذا كتب أحدكم كتاباً فليتربه." کے تحت امام ترمذی نے فرمایا:" هذا حديث منكر لا نعرفه عن أبي الزبير إلا من هذا الوجه، وحمزة النصيبي ضعيف في الحديث.اهـ سبب إطلاق النكارة عليه لتفرد حمزة به وهو ضعيف عند جماهير الحفاظ."

جبکہ اس کی سند میں موجود راوی حمزہ نصیبی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے متروک اور متہم بالوضع قرار دیا ہے، دیکھیے عبارت:

تقريب التهذيب (ص: 179، رقم الترجمة: 1519) دار الرشيد، سوريا:

حمزة ابن أبي حمزة الجعفي الجزري النصيبي واسم أبيه ميمون وقيل عمرو متروك متهم بالوضع من السابعة ت.

اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں محمد بن عمر ورومی کے ترجمہ میں سوال میں ذکر کی گئی  روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے محمد بن عمر ورومی عن شریک کے طریق سے اس روایت  کی تخریج کی ہے، مگر مجھے معلوم نہیں کہ اس کو کس نے وضع کیا ہے؟دیکھیے عبارت:

ميزان الاعتدال لشمس الدين الذهبي(3/ 668) دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت:

وأخرج الترمذي عن إسماعيل بن موسى، عن محمد بن عمرو بن الرومي، عن شريك حديث: أنا دار الحكمة وعلى بابها، فما أدرى من وضعه؟

لیکن امام ترمذی کی ذکر کردہ سند میں تلاش کے باوجود ہمیں کوئی ایسا راوی نہیں ملا کہ جس پر  ائمہٴ جرح وتعدیل نے کذاب، وضاع یا متہم بالوضع او الکذب کا حکم لگایا ہو، شاید اسی لیے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا کہ مجھے معلوم نہیں کہ اس روایت کو کس نے وضع کیا ہے؟ نیز متقدمین محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک منکر کا لفظ تفرد کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ کے کلام میں تفرد کا احتمال بھی ہے، کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ شریک کے علاوہ ہم نے کسی کے پاس یہ حدیث نہیں پائی۔تاریخِ بغداد میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ اس روایت کو ابوالصلت عبد السلام بن صالح نے ابومعاویہ سے روایت کیا، مگر ابومعاویہ نے بعدمیں اس روایت کو بیان کرنا چھوڑ دیا تھا۔

اس کے علاوہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے واہی ہونے کا حکم لگایا اور فرمایا کہ اس روایت کے متن سے ہی اس کا جھوٹ ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علم کے شہر ہیں تو اس کا دروازہ ایک نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے علم پہنچانے والوں کی تعداد تواتر تک پہنچے، کیونکہ ان کو غائبین تک پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا، لہذا اس روایت کو کسی زندیق یا جاہل نے گھڑا ہے۔

لہذا جمہور محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً معتبر نہیں اور  ان کے اقوال کی روشنی میں جب تک یہ روایت کسی صحیح یا حسن درجے کی سند کے ساتھ مروی نہ ہواس کی نسبت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔

دوسرا قول:

دوسرا قول امام حاکم، حافظ علائی،حافظ ابنِ حجر، علامہ ابن عرّاق رحمہم اللہ  اور بعض دیگر متاخرین کا ہے، امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کے ایک طریق کو "مستدرک" میں صحیح الاسناد قرار دیا ہے، اگرچہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر رد کرتے ہوئے موضوع ہونے کا حکم لگایا، کیونکہ اس سند میں ابوالصلت نامی راوی پر ائمہٴ جرح وتعدیل نے شدید جرح کی ہے، لیکن امام حاکم رحمہ اللہ نے ابوالصلت کے بارے میں "ثقة مامون" کے الفاظ نقل کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ کے نزدیک یہ راوی ثقہ ہے، امام حاکم رحمہ اللہ کے علاوہ اور بھی حضرات نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے، نیز امام یحی بن معین رحمہ اللہ سے جب اس روایت کے بارے میں پوچھا گیا كہ ابو الصلت نے ابومعاويہ سے یوں نقل کیا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں ابوالصلت مسکین کا کیا قصور ہے؟ اس روایت کو ابومعاویہ (جو کہ امام اعمش کے شاگردوں میں سے ہیں) سے محمد بن جعفر نے بھی نقل کیا ہے، جو کہ ثقہ راوی ہے، البتہ اس روایت میں امام یحی بن معین رحمہ اللہ کی اپنی رائے کے بارے میں تاریخِ بغداد میں مختلف روایات نقل کی گئی ہیں، جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔

حافظ علائی رحمہم اللہ نے اپنی کتاب "النقد الصحیح"  میں اس روایت پر تفصیلی کلام ذکر کیا ہے اور انہوں نے اس روایت کے مختلف طرق نقل کرنے کے بعد علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ پر رد کرتے ہوئے لکھاہے کہ انہوں نے  اس روایت  پروضع کا حکم لگایا ہے، جبکہ وضع کی کوئی علتِ قادحہ ذکر نہیں کی۔اس کے بعد  حافظ علائی رحمہ اللہ نے  مختلف طرق پر تبصرہ کرنے کے بعد امام ترمذی اور امام حاکم رحمہ اللہ کے طرق کی بنیاد پر اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے"اللآلىء المصنوعة" میں نقل کیا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس حديث كو امام حاكم نے صحيح قرار ديا ہے اور علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے، جبکہ درست بات ان دونوں کے موقف کے درمیان ہے، وہ یہ کہ مذکورہ حدیث صحیح کا درجہ نہیں رکھتی اور بالکل جھوٹی اور موضوع کے درجے تک بھی نہیں گری ہوئی، بلکہ یہ حسن کا درجہ رکھتی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ اس میں تفصیل ہے، مگر معتمد بات یہی ہے، اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان میں جعفر بن محمد کے ترجمہ کے تحت لکھا ہے کہ اس روایت کے طرق کثیرہ ہیں، جن سے کم ازکم اتنا ضرورمعلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کی اصل موجود ہے۔نیز علامہ سیوطی، ابن حجر ہیتمی، علامہ ابن عرّاق  اور ملا علی قاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ حدیث کی تصحیح اور تضعیف کے سلسلہ میں درج ذیل باتوں کا سمجھنا ضروری ہے:

پہلی بات: رواة پر جرح وتعدیل اور حدیث کی تصحیح وتضعیف ایک اجتہادی اور ظنی معاملہ ہے، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ ایک راوی ایک امام کے نزدیک ثقہ اور دوسرے امام کے نزدیک ضعیف ہو، کیونکہ جس امام کو راوی کے جس طرح کے احوال کی خبر ہوئی اس نے اسی طرح کا حکم اس کے بارے میں نقل کیا اور پھر اسی کی بنیاد پر اس کی روایت پر صحیح یا ضعف کا حکم لگایا گیا۔

دوسری بات: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک روایت کئی طرق سے مروی ہوتی ہے، جن میں سے بعض طرق ضعف کے باوجود قابلِ اعتبار (یعنی ان میں ضعفِ خفیف ہونے کی وجہ سے متابع اور شاہد کے طور پر ان کو قبول کیا جا سکتا ہے) ہوتے ہیں اور دیگر بعض موضوع درجے کے ہوتے ہیں، ایسی صورت میں قابلِ اعتبار طرق پر مدار رکھتے ہوئے اس روایت کو حسن قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ روایت بھی پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے طرقِ کثیرہ سے مروی ہے، اگرچہ ان میں سے اکثر طرق میں ضعف شدید پایا جاتا ہے، لہذا جن ائمہ کرام نے اس پر حسن کا حکم لگایا ہے شاید ان کے نزدیک اس کے بعض طرق صالح للاعتبار ہوں۔

 لہذا جمہور محدثین کرام نے اگرچہ اس روایت کو موضوع اور غیر ثابت قرار دیا ہے، لیکن حافظ علائی اور حافظ ابن حجر رحمہا اللہ کا استقراء اورتتبع وتلاش کے بعد حسن کا حکم لگانے  اور پھر علامہ سیوطی، علامہ ابن عراق، علامہ زرکشی اور ملا علی قاری رحمہم اللہ کا ان کے اقوال کو نقل کرکے خاموشی اختیار کرنے کو بھی صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا، اس لیے اگرچہ احتیاط کے پیشِ نظر بہتر یہ  ہے کہ جمہورمحدثین  کے موقف پر عمل کرتے ہوئے اس روایت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان نہ کیا جائے، لیکن اگر حافظ علائی اور حافظِ ابن حجر رحمہما اللہ کے قول پر اعتماد کرکےاس روایت کو  بطورِ حدیث بیان کیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، خصوصاً جبکہ یہ روایت فضائل کے باب سے تعلق رکھتی ہے اور فضائل کے باب میں کمزور روایت بھی قابلِ بیان اور قابلِ عمل ہوتی ہے۔

حوالہ جات
سنن الترمذي ت شاكر (5/ 637، رقم الترجمة: 3723) شركة مكتبة ومطبعة مصطفى– مصر:
حدثنا إسماعيل بن موسى قال: حدثنا محمد بن عمر بن الرومي قال: حدثنا شريك، عن سلمة بن كهيل، عن سويد بن غفلة، عن الصنابحي، عن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا دار الحكمة وعلي بابها». هذا حديث غريب منكر وروى بعضهم هذا الحديث عن شريك، ولم يذكروا فيه عن الصنابحي [ص:638] ولا نعرف هذا الحديث عن أحد من الثقات غير شريك. وفي الباب عن ابن عباس.
المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 137،رقم الحديث: 4637) دار الكتب العلمية ، بيروت:
حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا محمد بن عبد الرحيم الهروي بالرملة، ثنا أبو الصلت عبد السلام بن صالح، ثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا مدينة العلم وعلي بابها، فمن أراد المدينة فليأت الباب» «هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه» وأبو الصلت ثقة مأمون.
فإني سمعت أبا العباس محمد بن يعقوب في التاريخ يقول: سمعت العباس بن محمد الدوري يقول: سألت يحيى بن معين، عن أبي الصلت الهروي، فقال: «ثقة» . فقلت: أليس قد حدث عن أبي معاوية، عن الأعمش «أنا مدينة العلم» ؟ فقال: قد حدث به محمد بن جعفر الفيدي وهو ثقة مأمون. سمعت أبا نصر أحمد بن سهل الفقيه القباني إمام عصره ببخارى، يقول: سمعت صالح بن محمد بن حبيب الحافظ يقول: وسئل عن أبي الصلت الهروي، فقال: دخل يحيى بن معين ونحن معه على أبي الصلت فسلم عليه، فلما خرج تبعته فقلت له: ما تقول رحمك الله في أبي الصلت؟ فقال: «هو صدوق» . فقلت له: إنه يروي حديث الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم «أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم فليأتها من بابها» ، فقال: قد روى هذا ذاك الفيدي(قيل:البغدادي)، عن أبي معاوية، عن الأعمش كما رواه أبو الصلت.
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 4637 - بل موضوع.
 
الشريعة للآجري (4/ 2068) أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) دار الوطن، الرياض:
1549 - أنبأنا أبو محمد عبد الله بن محمد بن ناجية قال: حدثنا شجاع بن شجاع أبو منصور قال: حدثنا عبد الحميد بن بحر البصري قال: حدثنا شريك قال: حدثنا سلمة بن كهيل , عن أبي عبد الرحمن , عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا مدينة الفقه, وعلي بابها»
الفوائد الموضوعة في الأحاديث الموضوعة (ص: 94) مرعي بن يوسف الكرمى المقدسي الحنبلى (المتوفى: 1033هـ) دار الوراق – الرياض:
وحديث: " أنا مدينة العلم وعلي بابها ". أنكره البخاري. وقال الحاكم: موضوع. وقال يحيى بن معين: لا أصل له. وقال أبو سعيد العلائي: إنه حسن باعتبار طرقه.
تذكرة الموضوعات للفتني (ص: 95) إدارة الطباعة المنيرية:
«أنا مدينة العلم وعلي بابها» أورده من حديث علي وابن عباس وجابر قلت قد تعقب العلائي على ابن الجوزي في حكمه بوضعه فإنه ينتهي بطرقه إلى درجة الحسن فلا يكون ضعيفا فضلا عن أن يكون موضوعا وقال ابن حجر صححه الحاكم وخالفه ابن الجوزي فكذّبه والصواب خلاف قولهما والحديث حسن لا صحيح ولا كذب.
تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان (ص: 179) دار الكتاب الإسلامي – القاهرة:
هو الذي رواه أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروي، عن أبي معاوية، عن الأعمش، عن مجالد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «أنا مدينة العلم، وعلي بابها» . قيل: إن أباالصلت وضعه على أبي معاوية، وسرقه منه جماعة فحدثوا به عن أبي معاوية.
الموضوعات الکبری، لملا علي القاري، (ص:23،24) ط: مطبع مجتبائي، دهلي:
’’حدیث: أنا مدینة العلم وعلي بابها. رواه الترمذي في جامعه، وقال: إنه منکر. وکذا قال السخاوي، وقال: إنه لیس له وجه صحیح. وقال البخاري: إنه کذب لا أصل له. وکذا قال أبو حاتم ویحییٰ بن سعید، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات ووافقه الذهبي وغیره علی ذلك. وقال ابن دقیق العید: هذا الحدیث لم یثبتوه. وقیل: إنه باطل. وقال الدارقطني: غیر ثابت. وسئل عنه الحافظ العسقلاني، فأجاب بأنه حسن، لاصحیح کما قال الحاکم، ولاموضوع کما قال ابن الجوزي. ذکره السیوطي. وقال الحافظ أبوسعید العلائي: الصواب أنه حسن باعتبار طرقه، لاصحیح ولاضعیف، فضلًا عن أن تکون موضوعًا علی ما ذکره الزرکشي‘‘.
تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين (ص: 123) أبو حفص عمر بن أحمد المعروف بـ ابن شاهين (المتوفى: 385هـ):
368- عمر بن إسماعيل بن مجالد. ليس بشيء. رجل سوء خبيث. حدث عن أبي معوية بحديث ليس له أصل. كذب على الأعمش عن مجاهد عن ابن عمر [أنا مدينة العلم وعلى بابها. وهو حديث ليس له أصل]
الضعفاء الكبير للعقيلي (3/ 149) أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) دار المكتبة العلمية – بيروت:
حدثنا عن أبي معاوية بحديث ليس له أصل، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «أنا مدينة العلم وعلي بابها»
العلل الواردة في الأحاديث النبوية للدارقطني (3/ 247،رقم الحدث: 386) دار طيبة – الرياض:
وسئل عن حديث الصنابحي، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنا مدينة الحكمة، وعلي بابها، فمن أراد المدينة فليأتها من بابها. فقال: هو حديث يرويه سلمة بن كهيل، واختلف عنه؛فرواه شريك، عن سلمة، عن الصنابحي، عن علي. واختلف عن شريك، فقيل: عنه، عن سلمة، عن رجل، عن الصنابحي. ورواه يحيى بن سلمة بن كهيل، عن أبيه، عن سويد بن غفلة، عن الصنابحي، ولم يسنده. والحديث مضطرب غير ثابت، وسلمة لم يسمع من الصنابحي.
مجموع الفتاوى (4/ 410) لشيخ الإسلام الإمام ابن تيمية (المتوفى: 728هـ) مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية:
وأما حديث " {أنا مدينة العلم} فأضعف وأوهى ولهذا إنما يعد في الموضوعات المكذوبات وإن كان الترمذي قد رواه. ولهذا ذكره ابن الجوزي في الموضوعات وبين أنه موضوع من سائر طرقه. والكذب يعرف من نفس متنه؛ لا يحتاج إلى النظر في إسناده: فإن النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان " {مدينة العلم} لم يكن لهذه المدينة إلا باب واحد ولا يجوز أن يكون المبلغ عنه واحدا؛ بل يجب أن يكون المبلغ عنه أهل التواتر الذين يحصل العلم بخبرهم للغائب ورواية الواحد لا تفيد العلم إلا مع قرائن وتلك القرائن إما أن تكون منتفية؛ وإما أن تكون خفية عن كثير من الناس أو أكثرهم فلا يحصل لهم العلم بالقرآن والسنة المتواترة؛ بخلاف النقل المتواتر: الذي يحصل به العلم للخاص والعام. وهذا الحديث إنما افتراه زنديق أو جاهل: ظنه مدحا؛ وهو مطرق الزنادقة إلى القدح في علم الدين - إذ لم يبلغه إلا واحد من الصحابة.
     اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (1/ 306) دار الكتب العلمية، بيروت:
وسئل شيخ الإسلام أبو الفضل ابن حجر عن هذا الحديث في فتيا فقال هذا الحديث أخرجه الحاكم في المستدرك وقال إنه صحيح وخالفه أبو الفرج ابن الجوزي فذكره في الموضوعات وقال إنه كذب والصواب خلاف قولهما معا وإن الحديث من قسم الحسن لا يرتقي إلى الصحة ولا ينحط إلى الكذب وبيان ذلك يستدعي طولا ولكن هذا هو المعتمد في ذلك انتهى.
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (1/ 308) دار الكتب العلمية - بيروت:
(قلت) فضيل الذي أعلى به الطريق الأول ثقة صدوق احتج به مسلم في صحيحه وأخرج له الأربعة وعبد الرحمن بن شريك وإن وهاه أبو حاتم فقد وثقه غيره وروى عنه البخاري في الأدب وابن عقدة من كبار الحفاظ والناس مختلفون في مدحه وذمه قال الدارقطني كذب من اتهمه بالوضع وقال حمزة السهمي ما يتهمه بوضع الأباطيل وقال أبو علي الحافظ أبو العباس إمام حافظ محله محل من يسأل عن التابعين وأتباعهم وداود وثقه قوم وضعفه آخرون ثم الحديث صرح جماعة من الأئمة والحفاظ بأنه صحيح قال القاضي عياض في الشفاء أخرج الطحاوي في مشكل الحديث عن أسماء بنت عميس من طريقين: أن النبي كان يوحى إليه ورأسه في حجر علي فذكر هذا الحديث.
قال الطحاوي وهذان الحديثان ثابتان ورواتهما ثقات وحكى الطحاوي أن أحمد بن صالح كان يقول لا ينبغي لمن سبيله العلم التخلف عن حفظ حديث أسماء لأنه من علامات النبوة انتهى ما في الشفاء.
والحديث الأول أخرجه الطبراني حدثنا الحسين بن إسحاق التستري حدثنا عثمان بن أبي شيبة (ح) وحدثنا عبيد بن سنام حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قالا حدثنا عبيد الله بن موسى به أخرجه العقيلي حدثنا أحمد بن داود حدثنا عمار بن مطر حدثنا فضيل بن مرزوق به.
لسان الميزان ت أبي غدة (2/ 465، رقم الترجمة: 1884) دار البشائر الإسلامية:
جعفر بن محمد الفقيه. فيه جهالة:
قال مطين: حدّثنا جعفر، حدّثنا أبو معاوية، عَن الأَعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صَلَّى الله عليه وسلّم يقول: أنا مدينة العلم وعلي بابها. هذا موضوع، انتهى.
وهذا الحديث له طرق كثيرة في مستدرك الحاكم أقل أحوالها أن يكون للحديث أصل فلا ينبغي أن يطلق القول عليه بالوضع.
 
النقد الصحيح لما اعترض من أحاديث المصابيح (ص: 52، رقم الحديث: 18) صلاح الدين أبو سعيد خليل الدمشقي العلائي (المتوفى: 761ھ):
"أنا مدينة العلم وعلي بابها".
وهذا الحديث ذكره أبو الفرج بن الجوزي في (الموضوعات) من عدة طرق، وجزم ببطلان الكل.
وقال مثل ذلك أيضاً جماعة، وعندي في ذلك نظر كما سأبينه. والمشهور بروايته أبو الصلت عبد السلام بن صالح الهروي، عن أبي معاوية محمد بن خازم الضرير عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس رضي الله عنهما. وعبد السلام هذا ضعفوه جداً، واتهم بالرفض، ومع ذلك فقد روى عباس بن محمد الدوري في سؤالاته يحيى بن معين أنه سأله عن أبي الصلت هذا فوثقه. فقال: أليس قد حدث عن أبي معاوية حديث "أنا مدينة العلم".فقال: قد حدث به محمد بن جعفر الفيدي، وهو ثقة عن أبي معاوية.
وكذلك روى صالح بن محمد الحافظ الملقب جزره، وأبو الصلت أحمد بن محمد بن محرز عن يحيى بن معين، وفي رواية أبي الصلت بن محرز قال يحيى في هذا الحديث: هو من حديث أبي معاوية، أخبرني ابن نمير قال: حدث به أبو معاوية قديماثم كف عنه.
وكان أبو الصلت الهروي رجلاً موسراًيطلب هذه الأحاديث، ويكرم المشايخ، يعني فخصه أبو معاوية بهذا الحديث. فقد برئ عبد السلام الهروي من عهدة هذا الحديث. وأبو معاوية الضرير ثقة حافظ، يحتج بإفراده، كابن عيينة وغيره.
وليس هذا الحديث من الألفاظ المنكرة التي تأباها العقول، بل هو مثال قوله صلى الله عليه وسلم في حديث: "أرحم أمتي أبو بكر، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل". وقد حسنه الترمذي، وصححه غيره. وله باب من تكلم على حديث "أنا مدينة العلم" بجواب عن هذه الروايات الثابتة عن يحيى بن معين، فالحكم عليها بالوضع باطل قطعاً. وإنما سكت أبو معاوية عن روايته شائعاً لغرابته لا لبطلانه، إذ لو كان كذلك لم يحدث به أصلاً مع حفظه وإتقانه. وللحديث طريق أخرى رواها الترمذی فی جامعه عن إسماعيل بن موسى الفزاري عن محمد بن عمر بن الرومي عن شريك بن عبد الله عن سلمة بن كهيل عن سويد بن غفلة عن أبي عبد الله الصنابحي عن علي رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أنا دار الحكمة وعلي بابها ".وتابعه أبو مسلم الكجي وغيره (في) روايته عن محمد بن عمر بن الرومي. ومحمد هذا روى عنه البخاري في غير الصحيح، ووثقه ابن حبان.
 
 
وضعفه أبو داود. وقال الترمذي بعد سياق هذا الحديث: هذا حديث غريب، وقد روى بعضهم هذا عن شريك، ولم يذكر فيه الصنابحي، ولا يعرف هذا عن أحد من الثقات غير شريك.
قلت: فلم يبق الحديث من أفراد محمد بن الرومي. وشريك  هذا احتج به مسلم، وعلق له البخاري. ووثقه يحيى بن معين والعجلي، وزاد حسن الحديث. وقال عيسى بن يونس: ما رأيت أحداً قط أورع في علمه من شريك.
فعلى هذا يكون تفرده حسناً، ولا يرد عليه رواية من أسقط الصنابحي منه، لأن سويد بن غفلة تابعي مخضرم، وروى عن أبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضي الله عنهم، وسمع منهم، فيكون ذكر الصنابحي فيه من باب المزيد من متصل الأسانيد.
والحاصل: إن الحديث ينتهي بمجموع طريقي أبي معاوية وشريك إلى درجة الحسن المحتج به، ولا يكون ضعيفاً، فضلاً عن أن يكون موضوعاً. ولم أجد لمن ذكره في الموضوعات طعناً مؤثراً في هذين السندين، وبالله التوفيق.
الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي (ص: 123، رقم الفتوى: 155) شيخ الإسلام أحمد بن محمد ابن حجر الهيتمي (المتوفى: 974هـ) دار الفكر،بيروت:
وسئل نفع الله به: عن حديث (أنا مدينة العلم وعلي بابها) من رواه؟ فأجاب بقوله: رواه جماعة، وصححه الحاكم، وحسنه الحافظان العلائي وابن حجر.
تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية (11/ 50) دار الكتب العلمية – بيروت:
سمعت يحيى- وذكر أبا الصلت الهروي فقال: لم يكن أبو الصلت عندنا من أهل الكذب، وهذه الأحاديث التي يرويها ما نعرفها.
أخبرنا البرقاني قال: قرئ على محمد بن عبد الله بن خميرويه وأنا أسمع- أخبركم يحيى بن أحمد بن زياد وقال: سألته- يعني يحيى بن معين- عن حديث أبي معاوية الذي رواه عبد السلام الهروي عنه عن الأعمش، حديث ابن عباس، فأنكره جدا.
أخبرنا علي بن الحسين- صاحب العباسي- أخبرنا عبد الرحمن بن عمر الخلال، حدثنا محمد بن إسماعيل الفارسي، حدثنا بكر بن سهل، حدثنا عبد الخالق بن منصور قال: وسألت يحيى بن معين عن أبي الصلت فقال: ما أعرفه، قلت له: أنه يروي حديث الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس «أنا مدينة العلم وعلي بابها» فقال: ما هذا الحديث بشيء.
قلت: أحسب عبد الخالق سأل يحيى بن معين عن حال أبي الصلت قديما ولم يكن يحيى إذ ذاك يعرفه، ثم عرفه بعد. فأجاب إبراهيم بن عبد الله بن الجنيد عن حاله، وأما حديث الأعمش فإن أبا الصلت كان يرويه عن أبي معاوية عنه فأنكره أحمد بن حنبل، ويحيى بن
 
معين من حديث أبي معاوية، ثم بحث يحيى عنه فوجد غير أبي الصلت قد رواه عن أبي معاوية.
فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا أبو بكر مكرم بن أحمد بن مكرم القاضي، حدثنا القاسم بن عبد الرحمن الأنباري، حدثنا أبو الصلت الهروي، حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا مدينة العلم وعلي بابها، فمن أراد العلم فليأت بابه» .
قال القاسم: سألت يحيى بن معين عن هذا الحديث فقال: هو صحيح. قلت: أراد أنه صحيح من حديث أبي معاوية وليس بباطل، إذ قد رواه غير واحد عنه.
تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة (1/ 378) دار الكتب العلمية – بيروت:
 وفي لفظ: " أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت الباب " (مر) بسند فيه مجاهيل (طب) من حديث ابن عباس من طريق أبي الصلت الهروي (خط) من طريقين في أحدهما جعفر البغدادي وفي الآخر رجاء بن سلمة (عق) من طريق عمر بن إسماعيل بن مجالد (عد) من طريقين في أحدهما أحمد بن سلمة وفي الآخر سعيد بن عقبة مجهول ليس بثقة (مر) من طريق الحسن بن عثمان (حب) من طريق إسماعيل بن محمد بن يوسف (عد) من حديث جابر من طريق أبي جعفر المكتب (تعقب) بأن حديث علي أخرجه الترمذي والحاكم وحديثا ابن عباس وجابر أخرجهما الحاكم، وسئل الحافظ ابن حجر عن هذا الحديث في فتيا، فكتب عليها: هذا الحديث أخرجه الحاكم في المستدرك وصححه، وخالف أبو الفرج ابن الجوزي فذكره في الموضوعات، والصواب خلاف قولهما معا. وأن الحديث من قسم الحسن، لا يرتقي إلى الصحة ولا ينحط إلى الكذب، وبيان ذلك يستدعي طولا، ولكن هذا هو المعتمد. وقال في لسان الميزان: هذا الحديث له طرق كثيرة في مستدرك الحاكم أقل أحوالها أن يكون للحديث أصل، فلا ينبغي أن يطلق عليه القول بالوضع انتهى. وللحافظ العلائي في أجوبته عن الأحاديث التي تعقبها السراج القزويني على مصابيح البغوي فصل طويل في الرد على ابن الجوزي وغيره ممن حكم بوضع هذا الحديث وحاصله الحكم على الحديث بأنه حسن.
 

 محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

7/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب