021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کلالہ کی میراث کاحکم
75660میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے ماموں سید محمد کمال شاہ کا انتقال1992  میں ہو گیا تھا ، ان کی وفات کے وقت ان کی کوئی اولاد اور والدین وغیرہ نہیں تھے، ان کے ورثاء میں محض ان کی بیوہ  تھی، میرے ماموں کی اپنی کوئی ذاتی پراپرٹی وغیرہ نہیں تھی، میرے ماموں کے آٹھ بہن بھائی ہیں۔

سید محمد کمال شاہ کی بیوہ حسن بانو یعنی میری ممانی  کا انتقال2021  میں ہوا ہے،حسن بانو کے انتقال کے وقت ان کی اولاد ، والدین اور بہن بھائیوں میں سے کوئی زندہ نہیں تھایعنی کہ وہ کلالہ تھیں، اور ان کی وفات کے وقت ان کی ملکیت میں  منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی۔

پوچھنا یہ ہے کہ اگر میرے ماموں کی کوئی ذاتی پراپرٹی ہوتی  تو وہ ان کے انتقال کے  بعد کتنے عرصے میں ان کے بہن ،بھائیوں کو تقسیم کرنی چاہیے تھی؟

نیز یہ بھی بتادیں کہ کلالہ کا ­وارث کون ہوتا ہے؟ کلالہ کی میراث کے بارے میں قرآن و حدیث  کی روشنی میں کیا حکم ہے؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث کی تقسیم جتنی جلدی ہو سکے کر لینی چاہیے، البتہ بعض صورتوں میں انتظامی امور کی وجہ سے اگر کچھ تاخیر  ہو جائے تو اس کی گنجائش ہے،تقسیم میراث میں بلا وجہ تاخیر کرنے  سے ایک وارث کا   دوسرے  وارث  کا حق استعمال کرنے اور دیگر کئی  طرح کےمسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، البتہ  مدت کےاعتبار سے اس طر ح  کی کوئی تعیین و تحدید نہیں  ہے کہ اسی عرصے میں ہی  میراث تقسیم  کی جا سکتی ہو۔

"کلالہ" اس انسان کو کہا جاتا ہے جس کی وفات کے وقت اس کے اصول ( والدین ،دادا ،دادی۔۔۔الخ) و فروع (اولاد، پوتے پوتیاں۔۔۔۔) میں سے کوئی زندہ  نہ ہو۔

انسان کی وفات کے  بعد اس کی میراث کا مستحق بننے  کےلیے شریعت مطہر ہ نے بالترتیب کچھ لوگوں  کو وارث مقرر کیا ہےکہ ان میں سے  بعض کی موجودگی میں دوسرے بعض محروم ہو جاتے ہیں جبکہ بعض کی عدم موجودگی کی صورت میں دوسرے بعض  وارث بن کر میراث کے مستحق ہو جاتے ہیں، کلالہ  کی میراث میں بھی اسی طرح کی صورتحال پیش آتی ہے کہ میراث کےاولین مستحق ( اصول و فروع)   نہ ہونے کی وجہ سے میراث دیگر ورثاء کے درمیان تقسیم کر دی جاتی ہے۔

دیگر ورثاء میں  میت کے بہن بھائی( سگے و سوتیلے)، بھتیجے ، بھتیجیاں، بھانجے ،بھانجیاں،، چچا ، تایااور ان کی اولاد وغیرہ شامل ہیں، جو ایک خاص ترتیب  اور خاص تناسب سے میت کی میراث کے مستحق بنتے ہیں۔

جس  مخصوص صورت سےمتعلق  مسئلہ دریافت کرنا ہو اس کو  باقاعدہ لکھ کر کسی دارالافتاء سے معلوم کر لیں۔

حوالہ جات
 (النساء :176)
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ .

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۷ جمادی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب