021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدہ کی خودکشی کی دھمکی کی وجہ سے طلاق نامہ پر دستخط کرنا
79234طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال

سوال: میرے شوہر کومجبور کیاگیا،اس سے زبردستی طلا ق نامہ پر دستخط کراوئے گئے،ان کو کہا گیا تھا کہ دستخط کرنے سے طلاق نہیں  ہوتی،بہت مجبور کیا تھا میرے شوہر کو،میری ساس نے کہا تھا کہ اگر دستخط نہ کئے تو میرا مرا منہ  دیکھو گے،اسی لئے میرے شوہر نے دستخط کر دیئے ،پہلے انہوں نے مجھے مار کر گھر سے نکالا ،پھر میرے شوہر کو بھی مجبور کرتے تھے کہ اسے چھوڑ دو،لیکن میرا شوہر مجھے نہیں  چھوڑتا تھا،اسی وجہ سے انہوں نےزبردستی دستخط  کروا لئے ہیں،جبکہ میرے شوہر نے مجھے اپنے منہ سے  ابھی تک طلاق کا لفظ نہیں بولا،طلاق کا نوٹس بھی میری ساس خود بنواکر لائی تھی اور مجھے بھی میری ساس نے ہی نوٹس بھیجا تھا، ہمارے ساتھ  ناانصافی  ہوئی ہے،پلیز ہمیں  فتوی دیدیں۔

تنقیح:

1) نوٹس میں کتنی طلاقیں لکھی ہیں؟

جواب :تین طلاق

2) آپ کے شوہر کویہ کس نے کہاتھا کہ دستخط کرنے سے طلاق نہیں ہوتی؟

جواب: وکیل نے کہاتھا کہ سائن کرنے سے طلاق نہیں ہوتی۔

3) آپ نے لکھاہے کہ بہت مجبور کیاتھا ،کیسے مجبور کیاتھا؟

جواب:جی  میری ساس باربار میرے شوہر کو کہتی تھی کہ تو اس  کوطلاق دے دو،اس کو چھوڑدو، اگر دستخط نہ کئے تو میرا مرا منہ  دیکھو گے ،بہت مجبور کرتی  تھی اس وجہ سے میرے شوہر نے مجبور ہوکر دستخط  کر دیئے ۔

تنقیح:سائلہ اور اس کے شوہر سے مزید تنقیح سے معلوم ہوا کہ اس کی والدہ کے قول "میرا مرا منہ دیکھو گے" کا مقصد خودکشی کی دھمکی دینا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،اس لئے اسے جو بتایا جاتا ہے وہ اس کے مطابق جواب دیتا ہے،لہذا اگر سائل کی جانب سے سوال میں کوئی غلط بیانی ہوگی تو اس کا وبال اسی کے سر ہوگا،اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

مذکورہ صورت میں ماں نے بیٹے پر دباؤ ڈالنے کے لئے جو جملہ کہا ہے"اگر دستخط نہیں کروگے تو میرا مرا منہ دیکھوگے" اول تو اس جملے کا مطلب خودکشی کی دھمکی دینا نہیں ہوتا،بلکہ اس طرح ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے کہ زندگی میں تجھے منہ نہ دکھاؤں گی تو تم میرا مرا منہ دیکھو گے۔

دوسرے اگر اس جملے سے ماں کا مقصد خودکشی کی دھمکی دینا ہی تھا (جیسا کہ میاں بیوی کا بیان ہے) تو بھی محض اس طرح کا جملہ بول دینے  اور دھمکی دینے سے شرعا کسی قسم کا اکراہ ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ مائیں اولاد پر دباؤ ڈالنے کے لئے اس طرح کے جملے کہتی رہتی ہیں،لیکن اولاد کو یقین ہوتا ہے کہ ماں صرف دھمکی دے رہی ہے،حقیقت میں وہ ایسا نہیں کرے گی۔

لہذا مسئولہ صورت میں اگر اس طرح کی عمومی صورتِ حال تھی اور اس میں شوہر نے تین طلاقوں پر مشتمل طلاق نامے پر دستخط کئے ہیں تو تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،اب رجوع نہیں ہوسکتا اور بغیر حلالہ کے نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

تاہم اگر ماں خود کشی کی دھمکی دینے میں واقعةً سنجیدہ تھی اور آپ کے شوہر کو اس بات کا یقین یا غالب گمان تھا کہ اگر وہ طلاق نامے پر دستخط نہیں کرے گا تو والدہ واقعةً خود کشی کا اقدام کرلے گی تو تو پھر مذکورہ صورت میں زبان سے طلاق کے الفاظ کہے بغیر مجبوراً محض طلاق نامے پر دستخط کرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،کیونکہ جبراً دلوائی گئی تحریری طلاق شرعاً واقع نہیں ہوتی۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 379):
"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان".
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "(7/ 175):
"وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان: نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعا كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر، ومنهم من قدره بعدد ضربات الحد، وأنه غير سديد؛ لأن المعول عليه تحقق الضرورة فإذا تحققت فلا معنى لصورة العدد، وهذا النوع يسمى إكراها تاما، ونوع لا يوجب الإلجاء والاضطرار وهو الحبس والقيد والضرب الذي لا يخاف منه التلف، وليس فيه تقدير لازم سوى أن يلحقه منه الاغتمام البين من هذه الأشياء أعني الحبس والقيد والضرب، وهذا النوع من الإكراه يسمى إكراها ناقصا".
"الدر المختار " (6/ 129):
"(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى ".
"البحر الرائق " (3/ 264):
"وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها فكتب فلانة بنت فلان طالق لم يقع اهـ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

07/رجب1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے