021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچیوں کی پرورش کا شرعی حقدار
75788طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے  میں کہ میری بیوی نے عدالت سے خلع لی، جبکہ  میں بھی پیش ہوتا رہا لیکن میری  عدم موجودگی میں یکطرفہ خلع  لے کر دوسرا نکاح کر لیا، میری دو بیٹیاں اس کے پاس  ہیں، جن کی عمر چھ سال اور  پانچ سال ہے ، تقریبا تین سال سے عدالت کے چکر لگا رہا ہوں،اور تاحال بچیاں مجھ کو نہیں ملیں، عدالت اور شرعی رو سے بچیاں ان کی نانی یا خالہ کو پالنے کا حق ہے لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ بچیوں  کی نانی  نفسیاتی مریضہ ہے اور ایک خالہ ہے وہ بھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے وہ  تو اس قدر بے ہوش ہے کہ  پیشاب یا پاخانہ بھی بستر یا چارپائی پر کر دیتی ہے، اسے اپنا ہوش نہیں ہے تو وہ میری بچیاں  کہاں پال سکتی ہے۔

اب میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں عدالت  میں فتوی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ  جب نانی اور خالہ خود اپنی نگہداشت نہیں کر سکتی اور ان کی ماں نے دوسری شادی خاندان سے  باہر بچیوں کے غیر محرم سے  کر لی  ہے تو شرعا اب بچیوں کو میر ے (یعنی والد کے) حوالہ کیا جائے، میر ی چار بہنیں ہیں یعنی کہ بچیوں کی چار پھوپھیاں ہیں جو ان بچیوں کی دیکھ بھال کر یں گی۔

2018سے عدالت میں کیس زیر سماعت ہے، بچیوں کا خرچہ بھی عدالت  کی وساطت سے دے رہاہوں، عید پر بچیوں کو گھر لے کر آنے کی درخواست دی تو عدالت نے صرف چار گھنٹوں  کے لیے بچیاں مجھے دینے کے لیے کہا، لیکن میں غصہ میں بچیوں کو نہیں لے کر آیا کہ سگا باپ  بچیوں سےچار گھنٹے  کے لیےملے اور سوتیلے باپ کے پاس بچیاں مستقل رہیں۔

پرورش کی حقدار عورتوں میں سے بچیوں کی ماں، نانی ،ایک حقیقی  خالہ اور  چار پھوپھیاں موجود ہیں،دادی، بچیوں کی دیگر حقیقی یا سوتیلی بہنیں، حقیقی یا ماں شریک بہن کی بیٹی، سوتیلی خالہ ، باپ شریک بہن کی بیٹی، حقیقی یا سوتیلے  بھائی کی بیٹی میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔

تین پھوپھیاں   شادی  شدہ ہیں(ان کی شادی بچیوں کے غیر محرم سے ہوئی ہے) جب کہ ایک پھوپھی بیوہ ہے۔

آپ سے التماس ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں فتوی دیں کہ  بچیوں کی تعلیم و تربیت مستقل طور پر میری ذمہ داری ہے،  جبکہ بچیوں کی والدہ  نے دوسری شادی کرلی ہے ، از راہ کرم شریعت کے مطابق جو فیصلہ ہے وہ فتوی عطا فرمائیں،تا کہ میں عدالت  میں فتوی بطور سند پیش کر سکوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اولاد اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت  اور امانت ہے  جس کی مکمل خیر خواہی کے ساتھ پرورش کرنا  والدین پر لازم ہے، اولاد کی پرورش میں شریعت مطہرہ نے شفقت ، ہمدردی اور بچوں کے ساتھ خیر خواہی  کے جذبے کو  بہت زیادہ ملحوظ  رکھا ہے، اسی وجہ سے میاں بیوی کی جدائی کے بعد  چھوٹے بچوں کی پرورش کا  حق سب سے پہلے  ان کی ماں  کو دیا گیا ہے، ماں کے بعد  نانی ،اس کے بعد دادی، پھر حقیقی بہن،پھر ماں شریک بہن ، پھر باپ شریک بہن،اس کے بعد حقیقی بہن کی بیٹی، اس کے بعد ماں شریک بہن کی بیٹی اس کے بعد حقیقی خالہ، اس کے بعد ماں کےاعتبار سے خالہ ،پھر باپ کے اعتبار سے خالہ، پھر باپ شریک بہن کی بیٹی، پھر حقیقی بھائی کی بیٹی، اس کے بعد ماں شریک بھائی کی بیٹی پھر باپ شریک بھائی کی بیٹی اور اس کے بعد حقیقی پھوپھی  کو یہ حق دیا گیا ہے۔

البتہ پرورش کرنے والی خاتون( ماں یا ماں کے علاوہ دیگر خواتین) کے لیے درج ذیل آٹھ شرائط کا پایا جانا  ضروری ہیں، اور ان میں سے کسی ایک شرط کی  بھی عدم موجودگی  کی صورت  میں اس    خاتون کا پرورش کاحق ختم ہو جائےگا:

  1. پرورش کرنے والی خاتون  آزاد ہو، لہذا باندی کو پرورش کا حق حاصل نہیں ۔
  2. پرورش کرنے والی خاتون  بالغہ ہو، لہذا نابالغہ کو  پرورش کاحق حاصل نہیں۔
  3. پرورش کرنے والی خاتون  عقل و شعور رکھتی ہو، لہذا مجنونہ و پاگل عورت کو پرورش کاحق حاصل نہیں۔
  4. پرورش کرنے والی خاتون پر زیر پرورش بچہ/ بچی کی  تربیت کے سلسلے میں اطمینان کیا جا سکتا ہو، لہذا گانے یا نوحے کو بطور پیشہ اختیار کرنے والی خاتون  یا وہ خاتون جو عموما گھر سے باہر نکل جاتی ہو پرورش کی حقدار نہ ہو گی ۔
  5. پرورش کرنے والی خاتون   کو زیر پرورش بچے کی پرورش پر قدرت و اختیار حاصل ہو ، لہذا ایسی عورت جو بچے کی ضروریات پوری نہ کر سکتی ہو وہ پرورش کی اہل  نہ ہو گی۔
  6. پرورش کرنے والی خاتون  مرتدہ نہ ہو، لہذا مرتدہ کو پرورش کا حق نہ   ہو گا۔
  7. پرورش کرنے والی خاتون  نے زیر پرورش بچے کے غیر محرم سے شادی نہ کی ہو، اگر اس نے بچے کےغیر محرم سے شادی کر لی تو اس  سے پرورش کاحق ختم ہو جائیگا۔
  8. پرورش کرنے والی خاتون بچے کو اس شخص کے گھر میں نہ رکھتی ہو جو شخص اس بچے کو نا پسند کرتاہو۔

صورت مسئولہ میں بچیوں کی  پرورش کی مستحق  خواتین میں سے ان کی ماں، نانی ، ایک خالہ اور چار پھوپھیاں موجود ہیں،ماں نے چونکہ بچیوں کے غیر محرم سے شادی کر لی ہے اس لیے اس کا پرورش کا حق ختم ہو چکا ہے،نانی اور خالہ ضعیفہ اور   نفسیاتی مریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ بچیوں کی پرورش  کی قدرت و استطاعت  بھی نہیں رکھتی ، اس لیے وہ بھی پرورش کی اہل نہیں ہیں، جن تین پھوپھیوں کی شادی بچیوں کے غیر محرم سے ہو چکی ہے ان کا بھی پرورش کا حق باقی نہیں رہا، لہذا  بچیوں کی عمر نو سال ہونے تک ان کی پرورش کا حق شرعا  ان کی بیوہ پھوپھی کو ہے ، اور  نوسال کی عمر  ہو جانے کے بعد  بچیوں کی پرورش کی شرعی  ذمہ داری باپ کی طرف منتقل ہو جائیگی۔

واضح رہے کہ یہ جواب ،سوال میں فراہم کردہ معلومات کے مطابق ہے،معلومات کے واقع کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں شرعی حکم مختلف بھی ہو سکتاہے۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 181)
(قوله أحق بالولد أمه قبل الفرقة وبعدها) أي: في التربية والإمساك لما قدمناه ولما روي «أن امرأة قالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء وزعم أبوه أنه ينزعه مني فقال - عليه السلام - أنت أحق به» ولأن الأم أشفق وإليه أشار الصديق - رضي الله عنه - بقوله ريقها خير له من شهد وعسل عندك يا عمر قاله حين وقعت الفرقة بينه وبين امرأته والصحابة - رضي الله عنهم - حاضرون متوافرون أطلق في الأم وقيدوه بأن تكون أهلا للحضانة فلا حضانة لمرتدة سواء لحقت بدار الحرب أو لا؛ لأنها تحبس وتجبر على الإسلام، فإن تابت فهي أحق به ولا للفاسقة كما في فتح القدير وغيره، وفي القنية الأم أحق بالصغيرة وإن كانت سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم تعقل ذلك اهـ.وينبغي أن يراد بالفسق في كلامهم هنا الزنا المقتضي لاشتغال الأم عن الولد به بالخروج من المنزل ونحوه لا مطلقه الصادق بترك الصلوات لما يأتي أن الذمية أحق بولدها المسلم ما لم يعقل الأديان فالفاسقة المسلمة بالأولى ولا لمن تخرج كل وقت وتترك البنت ضائعة ولا للأمة وأم الولد والمدبرة والمكاتبة إذا ولدت قبل الكتابة ولا للمتزوجة بغير محرم، وكذلك لو كان الأب معسرا وأبت الأم أن تربي إلا بأجر وقالت العمة أنا أربي بغير أجر فإنه لا حضانة للأم وتكون العمة أولى في الصحيح كما سيأتي وسنذكر أن الكتابية أحق بولدها المسلم ما لم يعقل الأديان.(قوله ثم أم الأم) (قوله ثم أم الأب وإن علت) (قوله ثم الأخت لأب وأم ثم لأم ثم لأب) (قوله ثم الخالات كذلك)(قوله ثم العمات كذلك)(قوله ومن نكحت غير محرم سقط حقها) أي: غير محرم من الصغير كالأم إذا تزوجت بأجنبي منه لقوله «- عليه الصلاة والسلام - أنت أحق به ما لم تتزوجي» ولأن زوج الأم إذا كان أجنبيا يعطيه نزرا وينظر إليه شزرا فلا نظر له والنزر الشيء القليل والشزر نظر البغض ولذا قال في القنية الأم إذا تزوجت بزوج آخر وتمسك الصغير معها أم الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذه منها اهـ.فعلى هذا تسقط الحضانة إما بتزوج غير المحرم أو بسكناها عند المبغض له .
البناية شرح الهداية (5/ 644)
وإذا وقعت الفرقة بين الزوجين، فالأم أحق بالولد، لما روي «أن امرأة قالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء، وحجري له حواء، وثديي له سقاء، وزعم أبوه أنه ينزعه مني، فقال - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: "أنت أحق به ما لم تتزوجي» .ولأن الأم أشفق عليه وأقدر على الحضانة، فكان الدفع إليها أنظر، وإليه أشار الصديق - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بقوله: ريقها خير له من شهد وعسل عندك يا عمر. قاله حين وقعت الفرقة بينه وبين امرأته، والصحابة حاضرون متوافرون. والنفقة على الأب، على ما نذكر، ولا تجبر الأم عليها، لأنها عست تعجز عن الحضانة،فإن لم تكن له أم فأم الأم أولى من أم الأب. وإن بعدت، لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات، فإن لم تكن، فأم الأب أولى من الأخوات، لأنها من الأمهات، ولهذا تحرز ميراثهن السدس، ولأنها أوفر شفقة للأولاد. فإن لم تكن له جدة فالأخوات أولى من العمات والخالات، لأنهن بنات الأبوين، ولهذا قدمن في الميراث، وفي رواية: الخالة أولى من الأخت لأب لقوله - عَلَيْهِ السَّلَامُ -: «الخالة والدة» .وقيل في قَوْله تَعَالَى: {وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ} [يوسف: 100] (يوسف: الآية 100) ، أنها كانت خالته. وتقدم الأخت لأب وأم، لأنها أشفق، ثم الأخت من الأم، ثم الأخت من الأب، لأن الحق لهن من قبل الأم، ثم الخالات أولى من العمات ترجيحا لقرابة الأم، وينزلن كما نزلن الأخوات، معناه ترجيح ذات قرابتين، ثم قرابة الأم، ثم العمات ينزلن كذلك، وكل من تزوجت من هؤلاء يسقط حقها لما روينا.ولأن زوج الأم إذا كان أجنبيا يعطيه نزرا، وينظر إليه شزرا، فلا نظر. قال: إلا الجدة إذا كان زوجها الجد؛ لأنه قائم مقام أبيه، فينظر له. وكذلك كل زوج هو ذو رحم محرم منه لقيام الشفقة نظرا إلى القرابة القريبة. ومن سقط حقها بالتزوج يعود إذا ارتفعت الزوجية؛ لأن المانع قد زال فإن لم تكن للصبي امرأة من أهله، فاختصم فيه الرجل فأولاهم به أقربهم تعصيبا؛ لأن الولاية للأقرب، وقد عرف الترتيب في موضعين، غير أن الصغيرة لا تدفع إلى عصبة غير محرم، كمولى العتاقة وابن العم تحرزا عن الفتنة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 555)
قال الرملي: ويشترط في الحاضنة أن تكون حرة بالغة عاقلة أمينة قادرة، وأن تخلو من زوج أجنبي، وكذا في الحاضن الذكر سوى الشرط الأخير، هذا ما يؤخذ من كلامهم. اهـ.
الفتاوى الهندية (1/ 542)
ولا حضانة لمن تخرج كل وقت وتترك البنت ضائعة كذا في البحر الرائق.
الفتاوى الهندية (1/ 541)
 أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق.
 الاحکام الشرعیۃ فی الاحوال الشخصیۃ(124)
(مادۃ ۳۸۲)یشترط ان تکون الحاضنِۃ حرۃ  بالغۃ عاقلۃ امینۃ لا یضیع الولد عندھاباشتغالھا عنہ، قادرۃ علی تربیتہ و صیانتہ، وان لا تکون مرتدۃ ولا متزوجۃ  بغیر محرم للصغیر، و ان لا تمسکہ فی بیت المبغضین لہ،ولا فرق فی ذلک بین الام و غیر ھا من الحاضنات۔

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۹ جمادی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب