76145 | روزے کا بیان | نفلی روزے کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کسی کی دعوت پر نفلی روزہ توڑا جا سکتا ہے، اور کیا روزہ توڑنے کے بعد اس کا کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نفلی روزہ شروع کرنے کے بعد بلا وجہ توڑنا مناسب نہیں۔ اگر کسی شخص نےکھانے کی دعوت دی ہو، اور تعلق ایسا ہو کہ مہمان کی دعوت میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے میزبان کی دل شکنی ہوتی ہو، تو مہمان نفل روزہ توڑ سکتا ہے۔ بعد میں اس روزے کی صرف قضا واجب ہوگی، کفارہ نہیں ۔
حوالہ جات
فی الدر المختار :
(ولزم نفل شرع فيه قصدا) كما في الصلاة، فلو شرع ظنا، فأفطر أي فورا، فلا قضاء. أما لو مضى ساعة، لزمه القضاء. لأنه بمضيها صار كأنه نوى المضي عليه في هذه الساعة، تجنيس ومجتبى. (أداء وقضاء) أي يجب إتمامه، فإن فسد ولو بعروض حيض، في الأصح وجب القضاء. (2/428)
و فیہ أیضاً:
(والضيافة عذر) للضيف والمضيف، (إن كان صاحبها ممن لا يرضى بمجرد حضوره، ويتأذى بترك الإفطار) فيفطر (وإلا لا) هو الصحيح من المذهب ظهيرية. (2/429)
عبدالعظیم
دارالافتاء، جامعۃالرشید ،کراچی
01/رجب 1443 ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعظیم بن راحب خشک | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |