021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زیرِ تعمیر پراجیکٹس کی زکوۃ
77236خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

زبیر ایسوسی ایٹس ایک بلڈر ہےلوگوں کے لئے فلیٹس بناتا ہے پھر اس کو بیچتا ہے،تیار ہونے والی بلڈنگ کی  زکوۃ کے مسئلے میں اس نے کچھ مفتیانِ کرام سے رابطہ کیا ،رابطہ کے بعد ا ن مفتیانِ کرام کا کہنا تھا کہ یہ  استصناع ہےلہذافلیٹ پر قبضہ ہوجانے سے پہلے یہ فلیٹ زبیر ایسوسی ایٹس کی ملکیت شمار ہوگا اوراس کی زکوۃ زبیر ایسوسی ایٹس پر واجب ہوگی۔استصناع والی صورت میں زبیر ایسوی ایٹ کو کچھ اشکالات ہیں۔جوکہ نمبر وار درج کئے جاتےہیں :

نمبر 1 : دگنی زکوۃ کی ادائیگی

جس کی تفصیل یہ ہے  کہ اگر زبیر ایسوسی ایٹس استصناع پر محمول کرکے زیرِ تعمیر پراجیکٹس کی زکوۃ نکالنا چاہے تو اس میں زبیر ایسوسی ایٹس کو کافی مشکلات پیش آتی ہے اور بعض اوقات تونفع سے زیادہ رقم زکوۃ  کی مد میں چلی جاتی ہے، کیونکہ بکنگ جس رقم میں ہوئی ہوتی ہے ، زبیر ایسوسی ایٹس خریدار  سے اتنی ہی رقم لیتی ہے اگر اس دوران پراجیکٹ کے فلیٹس کی قیمت بڑھ جائے تو اس کا فائدہ اس خریدار کو ہی ہوتا ہے زبیر ایسوسی ایٹس کو بالکل بھی فائدہ نہیں ہوتا۔

مثلا ایک فلیٹ زبیر ایسوسی ایٹس نے دس لاکھ کا بیچا ہے تو زبیر ایسوسی ایٹس کو دس لاکھ ہی ملیں گے خریداراسے آگے بارہ لاکھ میں بیچنا چاہے تو بیچ سکتا ہے۔اور ایسی صورت میں زبیر ایوسی ایٹ کے ذمہ ڈبل زکوۃ کی ادائیگی لازم آئیگی وہ اس طرح کہ مثلا ایک پراجیکٹ زبیر ایسوسی ایٹس نے شروع کیا اور اس کی قیمت 10 لاکھ مقرر کی لیکن جب اس سال زکوۃ کا وقت آیا تو اس کی قیمت 11 لاکھ ہوچکی تھی تو اسے 11 لاکھ کے حساب سے زکوۃ ادا کرنی ہوگی، اور جو پیمنٹ زبیر ایسوسی ایٹس خریداروں سے لے چکی ہے اس پر بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی تو یہ ڈبل ہوجائے گا اسی طرح جب اگلے سال زکوۃ کا وقت آئے گا اور اس کی فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو 12 لاکھ ہوجائے گی تو زبیر ایسوسی ایٹس کو 12 لاکھ کے حساب سے زکوۃ ادا کرنی ہوگی اور بعینہ خریداروں سے لی گئی پیمنٹ پر بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی، اس طرح اگر پراجیکٹ چار سالوں میں مکمل ہوتا ہے تو ہر سال زبیر ایسوسی ایٹس پراجیکٹ ک ے فلیٹس کی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے زکوۃ نکالے گی اور ساتھ ہی پراجیکٹ کی موصول شدہ پیمنٹ پر بھی زکوۃ نکالےتو زکوۃ کی مد میں دی گئی رقم پراجیکٹ کے حاصل شدہ نفع سے تجاوز کرجائے،جو کہ زبیر ایسوسی ایٹس کیلئے گھاٹے کا سودا ہوگا۔

زبیر ایسوسی ایٹس زیرِ تعمیر  پراجیکٹس کی زکوۃ نہیں دیتی کیونکہ زبیر ایسوسی ایٹس انہیں اپنی ملکیت نہیں سمجھتی بلکہ خریدار کی ملکیت سمجھتی ہے،  مارکیٹ  پریکٹس بھی یہی ہے کہ اس فلیٹ کا مالک اب بکنگ والا ہے نہ کہ بلڈر،مارکیٹ میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ بکنگ والے کا ٹوکن لینے کے بعد اس فلیٹ کا مالک بلڈر ہو بلکہ سب لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اب اس بکنگ شدہ فلیٹ کے مالک بکنگ والاہی ہے۔

نمبر2:حکومتی قانون کی خلاف ورزی

مذکورہ مسئلہ استصناع پر محمول کرنے کی صورت میں حکومت کے قانون کی خلاف ورزی لازم آتی ہے،وہ اس طرح حکومتی قوانین کے مطابق ایک مرتبہ معاہدہ ہوجانے کے بعدزبیر ایسوسی ایٹس اسی رقم میں خریدار کو فلیٹ بنا کر دینے کی پابند ہوتی ہے اور کسی اور کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق وہ فلیٹ نہیں بیچ سکتی، اور استصناع کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ جب تک فلیٹ پر قبضہ نہ ہوجائے اس وقت تک فلیٹ زبیر ایسوسی ایٹس کی ملکیت ہے اور اسے مارکیٹ ریٹ کے مطابق اس کی زکوۃ نکالنا لازم ہے۔

ایک اور پہلو اس مسئلہ پر یہ ہے کہ زبیر ایسوسی ایٹس جب فلیٹ بک کرتی ہے تو حکومتی قانون کے مطابق ساتھ میں اس پراجیکٹ کی زمین کا ایک متعین حصہ بھی خریدار کے نام کرتی ہے اور یہ بات ایگریمنٹ میں بھی لکھی ہوتی ہے، مثلا ایک پراجیکٹ100 گز کی زمین پر مشتمل ہے اور اس میں  10 فلیٹس ہیں اور کسی نے اس میں فلیٹ نمبر8بک کروالیا تو ایگریمنٹ میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ زبیر ایسوسی ایٹس نے فلیٹ نمبر 8 بمع زمین کے 10 فیصد حصے کے فلاں خریدار کو بیچ دیا ہے، اس پہلو سے زبیر ایسوسی ایٹس یہ سمجھتی ہے کہ وہ خریدار کو اس کی زمین پر فلیٹ تیار کرکے دے رہی ہےتو یہ فلیٹ زبیر ایسوسی ایٹس کی ملکیت نہیں ہے۔اور استصناع والی صور میں گورنمنٹ کے قانون کی خلاف ورزی لازم آرہی ہے،کیونکہ استصناع کی صورت میں فلیٹ مستصنع کو حوالہ کرنے تک صانع کی ملکیت رہے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور تمہید سمجھ لیجیے کہ :

  1. آج کل   عموما فلیٹس بننے سے پہلے ہی  ان پر خرید و فروخت کا معاملہ کر دیا جاتا ہے ، جو شرعی لحاظ س معدوم چیز کی خریدو فروخت ہونے  کی وجہ سے ناجائز  ہے،  البتہ علماء کرام نے  اس  معاملہ  کا جائز  متبادل استصناع کے طور پر پیش کیا ہے کہ کسی بلڈنگ میں  فلیٹ خریدنے کا خواہشمندشخص ، بلڈر  کو متعین قیمت کے بدلے فلیٹ تیار کرنے کا  آر ڈر دے اور تیار ہوجانے پر بلڈر سے وہ فلیٹ وصول کر لے۔
  2. استصناع کی  صورت میں جب تک بلڈر اس فلیٹ کو تیار کر کے  مستصنع کے حوالے نہ کردے تب تک وہ فلیٹ بلڈر ہی کی ملکیت شمار ہو گا اور بلڈر کو شرعی لحاظ سے اس پر مکمل مالکانہ اختیار  حاصل ہو گا  الا  یہ کہ کسی جگہ کا قانون  بلڈر کے اختیارات محدود کر دے تو مصلحت کی خاطر اس قانون کی پابندی شرعا بھی لازم ہو گی مگر اس  کی وجہ سے  معاملہ کی شرعی حیثیت  اور حکم تبدیل نہیں ہو گا کہ   وہ    فلیٹ ابتداء سے ہی مستصنع کی ملکیت میں چلا جائے اور اسکی زکوۃ بھی مستصنع پر واجب ہو  خاص کر کے   جب قانون محض مستصنع سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے  کے  لیے وہ فلیٹ اسی مستصنع کو بیچنے کا پابند بنا رہاہو اور قانون میں یہ بات کسی جگہ موجود نہ ہو کہ یہ فلیٹ ابتداء سے ہی خریدار کی ملکیت شمار ہو گا، باقی  مارکیٹ پریکٹس  میں اگر  ان فلیٹس کو خریدار کی ملکیت سمجھا جاتا ہے( یا کسی جگہ کے قانون میں اگر  ان فلیٹس کو خریدار کی ملکیت کہا گیا ہے) تو اس کی وجہ  یہ ہے کہ  مارکیٹ میں ان فلیٹس کو بنانے سے پہلے ہی  ان پر خرید و فروخت کا معاملہ کر دیا جاتا ہے، ، استصناع کا معاملہ نہیں کیا جاتا  کیونکہ  استصناع کا معاملہ  کرنے کی صورت میں یقینا پھر استصناع کے احکام بھی لا گو ہوں گے ،استصناع کے احکام لاگو کیے بغیر محض  استصناع کا نام دے دینے سے کوئی معاملہ استصناع نہیں بن جاتا۔
  3. استصناع کا معاملہ ہو جانے کے بعد   بلڈر مستصنع سے فلیٹ کی حوالگی سے پہلے بھی  اس فلیٹ کی مد میں جو رقم لیتا جائیگا  وہ اس کی ملکیت بنتی جائیگی اور اس  کی زکوۃ بلڈر ہی پر واجب ہو گی  ۔

تمہید کے بعد پوچھے گئے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

سوال میں ذکر کیے گئے چند خدشات و اشکالات  محض کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں،  سب سے بنیادی   اشکال یہ ہے کہ اگر فلیٹس کو حوالہ کرنے سے پہلے ان کو   بلڈر کی ملکیت شمار کیا جائے تو اس صورت میں  بلڈر کو دگنی زکوۃ دینی پڑتی ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں  ہے، فلیٹس حوالہ کرنے سےپہلے ان کو بلڈر کی ملکیت شمار کرنے کے باوجود  دگنی زکوۃ کی ادائیگی بالکل بھی لازم نہیں  آتی ۔

 تفصیل  یہ ہے کہ جس  فلیٹ کی تعمیر کاکام   ابھی شروع ہی نہ ہوا ہو  ، اس پر استصناع کا معاملہ  کرنے کی تین صورتیں ہیں :

  • یا تو استصناع کے معاملے میں ساری کی ساری  رقم فلیٹ حوالہ کرنے کے بعد ادا کی جائیگی۔
  • یا استصناع کے معاملے میں ساری /کل رقم  استصناع کا معاملہ کرتے وقت ہی ایڈوانس ادا کر لی جائیگی۔
  • یا استصناع کے معاملے میں  رقم کی ادائیگی کو قسطوں پر تقسیم کر دیا جائیگا یعنی کہ کچھ رقم ایڈوانس اور باقی رقم یا تو فلیٹ مکمل ہونے کے بعد یا  فلیٹ کی تعمیر کے دوران  قسطوں میں ادا کی جائیگی ۔

استصناع کے معاملہ  میں ساری کی ساری رقم فلیٹ حوالہ کرنے کے بعد  ادا کرنے کی صورت میں تو  بلڈر پر دگنی زکوۃ کی ادائیگی کا لازم نہ آنا واضح ہے کہ  جب تک فلیٹ حوالہ نہیں کیا تب تک اس نے رقم وصول ہی نہیں کی اور  وہ اس رقم کا مالک نہیں بنا  لہذا اس پر   اس رقم کی زکوۃ بھی واجب نہیں ،محض فلیٹ کی زکوۃ  واجب ہے، اور جب فلیٹ حوالہ کر دیا  تو اس پر محض  حاصل ہونے والی( یا دوسرے شخص کے ذمہ لازم) رقم کی زکوۃ واجب ہے، فلیٹ کی زکوۃ واجب نہیں کیونکہ فلیٹ اس کی ملکیت سے نکل چکا ہے۔

البتہ اگر ساری کی ساری رقم ایڈوانس اداکر لی جائے( جو عموما ہوتا نہیں ہے) تو اس صور ت میں بظاہر اگرچہ یہ محسوس ہوتاہے کہ  یہاں  بلڈر کو دگنی زکوۃ ادا کرنی پڑ رہی ہے کہ بلڈر پر اس رقم کی زکوۃ کی ادائیگی بھی لازم ہے جو اس نے دوسرے فریق سےلی ہے اور زیر تعمیر یا  اس  تعمیر شدہ فلیٹ  کی زکوۃ بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے جو اس نے اب تک دوسرے فریق کو  حوالہ نہیں کیا ( کیونکہ وہ بھی اب تک بلڈر ہی کی ملکیت ہے)مگر حقیقت میں  دگنی زکوۃ کی ادائیگی لازم نہیں آرہی  کیونکہ بلڈر  جو   رقم مستصنع سے  وصول کرتا جا رہا ہے اسے انہی فلیٹس کی تعمیر میں خرچ کرتاجا رہا ہے جن کےلیے استصناع کا معاملہ ہوا ہے، لہذا جو رقم فلیٹس  کی تعمیر اور اخراجات میں استعمال ہو جائیگی اس رقم کی زکوۃ تو فلیٹ کی زکوۃ میں شامل ہے، الگ سے باقاعدہ اس رقم کی زکوۃ  ادانہیں کی جارہی۔

مثلا  ایک بلڈر نے ایک فلیٹ پر دس لاکھ  کے بدلے استصناع کا معاملہ کیا او مستصنع  سے ساری رقم ایڈوانس وصول کر لی( یاد رہے کہ یہ ان صورتوں کا بیان چل رہا ہے جن   میں فلیٹ کی تعمیر ابھی شروع ہی نہیں ہوئی) اور آٹھ لاکھ لگا کر اس نے  فلیٹ کا اٹھانوے    فیصد حصہ مکمل کر لیا  اور اتنے میں  زکوۃ کی ادائیگی کا وقت آگیا ، زکوۃ کی ادائیگی  کے وقت  فلیٹ کی اسی حالت میں ( اٹھانوے فیصد تیار شدہ فلیٹ کی )  مارکیٹ ویلیو  گیارہ لاکھ تھی، بلڈر  کے پاس مستصنع سے وصول شدہ دس لاکھ میں سے   دو لاکھ کی  رقم بھی باقی تھی چنانچہ کل ملا کر یہ تیرہ لاکھ بن گئے ،  لہذا اس صورت  میں بلڈر پر تیرہ لاکھ کی  زکوۃ واجب ہو گی جو کہ  ۳۲۵۰۰ بنتے ہیں، دگنی زکوۃ تو اس وقت لازم آتی جب  فلیٹ کی مارکیٹ قیمت یعنی  ۱۱ لاکھ کی زکوۃ الگ واجب ہو رہی ہو اور ایڈوانس رقم لے کر تعمیر میں خرچ ہونے والی ۱۰ لاکھ  کی زکوۃ الگ واجب ہو رہی ہو  یعنی کل ملا کر ۲۱ لاکھ کی زکوۃ واجب ہو رہی ہو جوکہ  ۵۲۵۰۰ بنتی ہے۔

البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص  پوری رقم ایڈوانس لے کر گھر میں  یا  کسی بینک کے کرنٹ اکاونٹ میں رکھوا دے  اور  فلیٹ کی تعمیر  اپنے پاس موجود دیگر پیسوں سے کرے  تو اس صورت میں تو   یقینا دگنی زکوۃ لازم آئیگی  وہ اس طرح کہ ایک تو بینک یا گھر میں رکھے ایڈوانس وصول شدہ   پیسوں پر زکوۃ ادا کرنی پڑ رہی ہے اور دوسرا فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو پر، تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی دگنی زکوۃ کی ادائیگی لازم نہیں آرہی کیونکہ فلیٹ کی تعمیر میں  جو اپنی طرف سے پیسے استعمال کیے گئے ہیں، وہ پیسے اگر استعمال نہ کیے جاتے  تو ان پر زکوۃ لازم ہوتی مگر ان پیسوں کو خرچ کر دینے  کی وجہ سے  ان کی زکوۃ ختم ہو گئی ،  لہذا دگنی زکوۃ کی ادا ئیگی لازم نہیں آئی یا پھر اگر کسی کو یہ بات سمجھ نہ آسکے تو اس کو جواب یہ ہے کہ اگر پیسے لے کر استعمال نہیں کرنے تو ایڈوانس لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ فلیٹ حوالہ کرنے کے بعد پیسے  لے لیے جائیں۔

بعینہ  یہی فلسفہ اس صورت میں بھی ہےجب کچھ   رقم ایڈوانس ہو اور باقی رقم قسطوں میں  یا مکمل رقم  فلیٹ حوالہ کرنے کے بعد  اد ا کی جائےیا ساری رقم قسطوں میں ہو ، کہ ان صورتوں میں بھی دگنی زکوۃ کی ادائیگی لازم نہیں آتی ۔

اگر کوئی فلیٹ زیر تعمیر ہے تو اس پر استصناع کا معاملہ کیا جا سکتا ہے اور اس صورت میں بھی کسی طرح کی دگنی زکوۃ کی ادائیگی کا اشکال لازم نہیں آتا ، اس کا فلسفہ بھی  بعینہ وہی ہے جو گزشتہ سطور میں گزراہے۔

چند متفرق امور  کے شرعی احکام درج ذیل ہیں:

  1. اگر کسی بلڈر  پر مثلا یکم رمضان کو زکوۃ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، اور وہ بلڈر   رمضان سے ایک ہفتہ پہلے زیر تعمیر فلیٹ پر  استصناع  کا معاملہ کر کے رقم ایڈوانس وصول کرلیتا ہے  ، اورایک ہفتہ میں ان پیسوں  کو استعمال کرنے کا موقع نہیں ملتا  تو رمضان شروع ہوتے ہی اس شخص پر اس وصول شدہ رقم  پر بھی زکوۃ   واجب ہو گی اور زیر تعمیر فلیٹ کی  مارکیٹ ویلیو پر بھی، یہی ایک صورت ہے جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے دگنی زکوۃ ادا کرنی پڑ گئی مگر  یہ دگنی زکوۃ محض پہلے سال کےلیے ہو گی، آئندہ سال دگنی زکوۃ کی ادائیگی لازم نہیں آئیگی، اس  کا حل یہ ہے کہ ایسی کسی صورتحال میں ایڈوانس رقم وصول ہی نہ کی جائے بلکہ رقم کی وصولی کو زکوۃ کی ادائیگی  کے بعد تک موخر کر دیا جائے،اس طرح اس رقم پر اس سال کی زکوۃ واجب نہ ہو گی،مزید یہ کہ اس طرح کی صورتحال کا وقوع بہت نادر ہے، جو قابل برداشت ہے۔
  2. سوال میں ایک جگہ اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ  مارکیٹ ویلیو بڑھ جانے کی صورت میں سارا فائدہ مستصنع اور خریدار کو ہوتا ہے، کہ خریدار اسےآگے زیادہ قیمت پر بیچ سکتا ہے، تو اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس صورت میں اگرچہ مستصنع اور خریدار کو فائدہ ہو رہا ہے مگر  استصناع کا معاملہ کرنے کی صورت میں جب تک بلڈر وہ فلیٹ مستصنع کو حوالہ نہ کردے تب تک وہ فلیٹ مستصنع  کی ملکیت میں نہیں جاتا ، لہذ ا ملکیت میں آنے سے پہلے مستصنع اگر اس فلیٹ کو بیچتا ہے تو شرعااس خریدو فروخت کا کوئی اعتبار نہیں اور خرید و فروخت کا یہ معاملہ ناجائز و باطل ہے۔
  3. فلیٹ حوالہ کرنے سے پہلے  مستصنع کی ملکیت کے عدم ثبو ت پر حکومتی قانون کی خلاف ورزی کے اشکال کا جواب یہ ہے کہ حکومتی قانون کی خلاف ورزی اس وقت لازم آتی جب قانون میں اس بات کی صراحت ہو کہ حوالہ کرنے سے پہلے ہی یہ فلیٹ مستصنع کی ملکیت ہو گا حالانکہ قانون میں  ایسی کوئی تصریح موجود نہیں بلکہ قانون تو محض یہ کہتا ہےکہ بلڈر معاہدہ کرنے کے بعد وہ فلیٹ کسی اور کو نہیں بیچ سکتا ، بلکہ اسی کو بیچے گا جس سے معاہد ہ کیا ہے،بالفرض اگر کسی قانون میں صراحت بھی ہوتی  کہ اس صورت میں فلیٹ حوالہ کرنے سے پہلے ہی خریدار / مستصنع کی ملکیت میں چلا جائیگا تو پھر وہ قانون خرید و فروخت کے معاملے کی بنیاد پر ہو گا(وہ جو چیز موجود نہ ہو اس کی خرید و فروخت کا شرعا کوئی اعتبار نہیں)، استصناع کی بنیاد پر نہ ہو گا، جب کہ سوال میں استصناع کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا ہے۔
  4. باقی استصناع  کی صورت میں فلیٹ کے ساتھ زمین کا جو متناسب حصہ  مستصنع کےحوالہ کیا جاتا ہے اس کی بنیاد پر یہ کہنا کہ فلیٹ گویا شروع سے  ہی مستصنع کی ملک ہوتاہے، دو وجہ سے درست نہیں ۔اول تو اس لیے کہ  زمین کی خریدوفروخت  کا یہ معاملہ  استصناع کے معاملہ کا ہی ایک جزء ہوتا ہے ، الگ سے زمین کی خرید وفروخت کا  معاملہ نہیں ہوتا، لہذا یہ معاملہ  بھی اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب استصناع کا عقد تکمیل کو پہنچتاہے،اس لیے اس سے پہلے یہ فرض کرنا کہ زمین شروع سے ہی مستصنع کی ہوتی ہے  اس لیے درست نہیں کہ یہ بات واقعہ کے خلاف ہے۔دوسرے  یہ  کہ جب  مسئولہ صورت میں بلڈر اپنا میٹریل استعمال کرتے ہوئے مستصنع  کےلیے فلیٹ تیار کرتا ہے تو قطع نظر ا س کے کہ اس مرحلے پر یہ زمین کس کی ملکیت ہوتی ہے شرعی لحاظ سے فلیٹ مستصنع کو حوالہ  کرنے سے پہلے بلڈر ہی کی ملکیت شمار ہو گا۔فلیٹ کو مستصنع کی ملکیت قرار دینا تب درست  ہوتا  جب بلڈر مستصنع  کے میٹریل سے اس کےلیے فلیٹ تیار کرتا  لیکن ظاہر ہےکہ مسئولہ صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔

الغر ض یہ استصناع کا معاملہ ہے اور اس میں فنش پروڈکٹ یعنی فلیٹحوالگی سے پہلے شرعا صانع ہی کا ملکشمار ہوتا ہے۔

 

  1. شرعی لحاظ سے کسی معاملہ کا حکم  معلوم کرنے کے لیے مستند مفتیان  کرام سے  رابطہ کیا کریں اور پھر اس پر عمل کرنے کی  کو شش کیا کریں، استصناع کے معاملے میں زبیر ایسوسی ایٹس  کی یہ رائے  "کہ فلیٹ  حوالہ کرنے سے پہلے ہی وہ  مستصنع کی ملکیت شمار ہوگا "بالکل غلط ہے ، اور محض یہ رائے رکھنے سے شرعی حکم تبدیل نہیں ہو گا اور نہ ہی  اس رائے کی وجہ سے زکوۃ  کی عدم ادائیگی کا گناہ ساقط ہو گا۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 50)
(بطل بيع ما ليس بمال)...(والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم... (وبيع ما ليس في ملكه).
مشروع لقانون اسلامی(96)
۹۶ ۔ لا یجب ان یکون ثمن الاستصناع معجلا کمافی السلم، بل یجوز ان یکون معجلا او موجلا او مقسطا، ویجوز ایضا ان تکون اقساط الثمن مرتبطۃ بالمراحل المختلفۃ لانجاز المشرور، اذا کانت تلک المراحل منضبطۃ  فی العرف ،بحیث لا ینشا فیھا نزاع۔
۹۷۔ الثمن المدفوع مقدما عند ابرام العقد مملوک للصانع  یجوز لہ الانتفاع والاسترباح بہ و تجب علیہ الزکاۃ فیہ۔۔۔۔۔۔
المعیار الشرعی (890)
۵/۲/۱:عروض التجارۃ کل ما ھو معد للتجارۃ من عقار او منقول  سواء مایباع بحالتہ او بعد تصنیعہ۔۔
المعیار الشرعی (891)
۵/۲/۶/۲:البضاعۃ قید التصنیع، تزکی بقیمتھا السوقیۃ بحالتھا یوم الوجوب، فان لم تعرف لھا قیمۃ سوقیۃ تزکی تکلفتھا۔
فقہ البیوع(590/1)
یجوز ان یکون الثمن معجلا کما فی السلم۔۔۔۔۔ الثمن المدفوع  مقدما عند ابرام العقد  مملوک للصانع  ، یجوز لہ الانتفاع و الاسترباح بہ و تجب علیہ الزکاۃ فیہ۔
الاختيار لتعليل المختار (2/ 7)
(وإن شرط تركها على الشجر فسد البيع) لأنه إعارة أو إجارة في البيع، فيكون صفقتين في صفقة وأنه منهي عنه.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 327)
وإن شرط تركها على النخل فسد) أي البيع لما قدمنا أنه محل النهي عن بيع الثمار قبل بدو صلاحها ولأنه شرط لا يقتضيه العقد وهو شغل ملك الغير أو؛ لأنه صفقة في صفقة؛ لأنه إجارة في بيع إن كان للمنفعة حصة من الثمن أو إعارة في بيع إن لم يكن لها حصة من الثمن.
 

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۸ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب