021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زیر تعمیر جن پراجیکٹس کی بکنگ نہیں ہوئی ان کی زکوۃ کا حکم
77238خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

پراجیکٹس میں وہ فلیٹس جن کی بکنگ ابھی نہیں ہوئیلیکن نقشے میں وہ موجود ہیں ان کی چارصورتیں ہوتی ہیں۔

  1. تعمیر ابھی ان فلیٹس کی منزل تک نہیں پہنچی مثلا بک نہ ہونے والے فلیٹس تیسری یا چوتھی منزل پہ ہیں اور ہماری تعمیر زکوۃ کے وقت دوسری منزل پر چل رہی ہے۔
  2. بک نہ ہونے والے فلیٹس کی تعمیر شروع ہوچکی ہو اور تعمیر درمیان میں ہو۔
  3. تعمیرتو  مکمل ہوچکی ہو لیکن اس کے خرچے مثلا پراجیکٹ اینڈنگ ٹیکس، الیکڑسٹی ٹیکس، ٹرانسفارمر کے پیسے ،گیس میٹرز کے ٹیکس، پانی کے کنکشن کے ٹیکس وغیرہ ابھی ادا نہیں ہوئے۔
  4. فلیٹس تیار ہوچکے ہیں، اور درجِ بالا تمام خرچے بھی کئے جاچکے ہوں۔

اول الذکر تین صورتوں میں ان فلیٹس کی زکوۃ نہیں دی جاتی، جبکہ آخر الذکر صورت میں مذکور فلیٹس کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ہر سال زکوۃ دی جاتی ہے، مثلا سال 2021 میں آخر الذکر فلیٹ کی قیمت 10 لاکھ ہے اور وہ اب تک فروخت نہیں ہوا اور زبیر ایسوسی ایٹس کی ملکیت ہے تو ایسی صورت میں اس کی 10 لاکھ کے حساب سے زکوۃ نکالی جاتی ہے، اسی طرح سال 2022 میں اگر اس کی مارکیت ویلیو 12 لاکھ ہو گئی اور وہ فلیٹ بدستور زبیر ایسوسی ایٹس کی ملکیت میں رہی تو 12 لاکھ کے حساب سےاس فلیٹ کی زکوۃ نکالی جائے گی۔

کیا زبیر ایسوسی ایٹ کا مذکورہ بالا طریقہ کار شرعا درست ہے ؟

مفتیانِ کرام کی طرف سے ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ زیرِ تعمیر بلڈنگ جس حالت میں ہو اسی حالت میں اس کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت لگا کر زکوۃ ادا کریں، لیکن یہ کام حقیقتا ممکن نہیں کیونکہ زیرِ تعمیر پراجیکٹس کو کوئی نہیں خریدتا، اور اگر ہم ایسا کریں تو ہمیں قانونی طور پر بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑجائے گا، اس لئے زیرِ تعمیر پراجیکٹ کی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے قیمت لگانا ممکن ہی نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں ذکر کی گئی چار صورتوں میں سےپہلی اور چوتھی  صورت  تو واضح ہےکہ  پہلی صورت میں  ان فلیٹس کی زکوۃ لازم ہی نہیں   جن کا ابھی بالکل بھی  وجود نہیں ہے  ، اور چوتھی صورت  میں تعمیر شدہ فلیٹس کی زکوۃ ادا کی جارہی ہے۔

دوسری صورت   ( جس میں بک نہ ہونے والے فلیٹس کی تعمیر شروع ہوچکی ہے اور تعمیر درمیان میں ہے)اور تیسری صورت (کہ جس میں تعمیرتو  مکمل ہوچکی ہو لیکن اس کے خرچے مثلا پراجیکٹ اینڈنگ ٹیکس، الیکڑسٹی ٹیکس، ٹرانسفارمر کے پیسے ،گیس میٹرز کے ٹیکس، پانی کے کنکشن کے ٹیکس وغیرہ ابھی ادا نہیں ہوئے) کا حکم یہ ہے کہ ان میں بھی ان فلیٹس کی موجودہ حالت کے مطابق  مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے زکوۃ لازم ہے، لہذا زبیر ایسو سی ایٹس کا دوسری اور تیسری صورت میں  بیان کردہ فلیٹس کی زکوۃ ادا نہ کرنا ناجائز اور   گناہ کبیرہ  ہے۔

یہ کہنا کہ"  زیرِ تعمیر پراجیکٹ کی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے قیمت لگانا ممکن ہی نہیں" ایک کمزور سی توجیہ اور زکوۃ سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے، آج کل جب غیر حسی چیزوں کی مارکیٹ ویلیو بسہولت معلوم کی جاسکتی ہے تو  جو فلیٹس حسا موجود ہوں ان کی مارکیٹ ویلیوکا اندازہ کیوں نہیں لگایا جا سکتا؟ لہذا بلڈنگ کے کام سے وابستہ ماہر حضرات سے ان پراجیکٹس کی مارکیٹ ویلیو لگا کر ان کی زکوۃ ادا کریں۔

مارکیٹ ویلیو لگانے کے لیے لوگوں کا ان فلیٹس کو ان کی موجودہ حالت میں خریدنا ضروری نہیں بلکہ محض ریٹ لگانا ہی کافی ہے کہ  مارکیٹ سے وابستہ لوگ بتائیں کہ اس فلیٹ کی قیمت اس حالت میں اتنی بنتی ہے۔

اگر لوگوں اور بلڈنگ سے وابستہ ماہرین سے زیر تعمیر فلیٹس کی مارکیٹ ویلیو معلوم کرنا   حقیقۃ ناممکن ہو جائے تو  مارکیٹ ویلیو معلوم کرنے کےلیے درج ذیل طریقہ اپنا یا جا سکتا ہے:

زیر تعمیر فلیٹ  ادائیگی زکوۃ کے وقت  اگر  مکمل سو فیصد تیار ہو چکا ہوتا تو اس کی مارکیٹ ویلیو  کیا ہوتی یہ معلوم کیا جائے،اور پھرزیر تعمیر   فلیٹ کی  تعمیر وغیرہ  کا جتنا کام باقی ہے  اس کام پر آنے والے اخراجات  کا اندازہ لگایا جائے اور ان اخراجات کی رقم کو  اس رقم سے منہا کر دیا جائے جو رقم  سو فیصد تیار فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو سے معلوم ہوئی تھی ، یوں زیر تعمیر فلیٹ کی مارکیٹ ویلیونکل آئیگی۔

مثلا زیر تعمیر فلیٹ  ادائیگی زکوۃ کے وقت  اگر  مکمل سو فیصد تیار ہو چکا ہوتا تو اس کی مارکیٹ ویلیو دس لاکھ ہوتی،مگر وہ مکمل نہیں ہے اور اس پر مزید دو لاکھ کا کام باقی ہے ، اب دس لاکھ  روپے میں سے دو لاکھ منہا کر دیے جائیں تو  آٹھ لاکھ  باقی رہتے ہیں، یہی آٹھ لاکھ زیر تعمیر فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو ہے ۔

یا  یوں سمجھ لیجیے کہ زیر تعمیر فلیٹ  ادائیگی زکوۃ کے وقت  اگر  مکمل سو فیصد تیار ہو چکا ہوتا تو اس کی مارکیٹ ویلیو  کیا ہوتی یہ معلوم کیا جائے،پھر  تعمیر  پر جتنا فیصد کام ہو چکاہے اس کو معلوم  کیا جائے، اس کے بعد ان دونوں کا موازنہ کیا جائے  ،  اب   تعمیر پر جتنا فیصد کام ہو چکا ہے اتنا فیصد حصہ اس رقم کا جو رقم فرض کیے گئے سو فیصد تیار فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو سے پتہ چلی تھی   ، اسے  معلوم کیا جائے، یہی رقم  زیر تعمیر فلیٹ کی ماکیٹ ویلیو ہے، یعنی کہ فرض کیے گئے سو فیصد تیار فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو   کا اتنا فیصد  حصہ جتنے فیصد  پر حقیقۃ کام ہو چکا ہے اس زیر تعمیر فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو ہے۔

مثلا زیر تعمیر فلیٹ  ادائیگی زکوۃ کے وقت  اگر  مکمل سو فیصد تیار ہو چکا ہوتا تو اس کی مارکیٹ ویلیو دس لاکھ ہوتی،مگر وہ فلیٹ ابھی سو فیصد تیار نہیں ہے بلکہ نوے فیصد تیار ہے، تو نوے فیصد فلیٹ کے مقابلے میں دس لاکھ میں سے  نو لاکھ کی رقم آجائیگی ، یہی نو لاکھ اس زیر تعمیر  فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو ہے۔

اسی طرح اگر کسی   سامان تجارت  کی مارکیٹ ویلیو کا اندازہ لگانا یقینا نا ممکن ہو جائے تو بعض علماء نے اصل لاگت (قیمت خرید مع دیگر اخراجات) کے حساب سے بھی زکوۃ زکوۃ ادا کرنے کی اجازت دی ہے ، خصوصا جب  زیر تکمیل کسی سامان تجارت کی مارکیٹ ویلیو ( قیمت فروخت) اس کی اصل لاگت سے یقینی طور پر کم ہو  تو ایسی صورت میں اسی طریقے کو اپنایا جائے، لہذا فلیٹ میں بھی یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔

محض مارکیٹ ویلیو لگانے سے  قانونا کسی بھی طرح کی کوئی پیچیدگی لازم نہیں آتی، آپ نے ماہرین سے پوچھ لیا کہ اس زیر تعمیر فلیٹ کی مارکیٹ ویلیو کتنی ہے اور انہوں نے بتایا کہ دس  لاکھ ہے تو اس  طرح کی تحقیق میں قانون پیچیدگی کہاں سے لازم آ گئی؟؟ شاید کوئی  قانونی پیچیدگی اس صورت میں لازم آ تی ہو جب زیر تعمیر فلیٹ کو اسی  حالت  میں بیچ دیا جائے ،مگر ادائیگی زکوۃ کےلیے فلیٹ کو حقیقۃ بیچا نہیں جاتا بلکہ محض مارکیٹ ویلیو لگانی ہوتی ہے۔

حوالہ جات
الأشباه والنظائر - حنفي (ص: 29)
و تشترط نية التجارة في العروض و لا بد أن تكون مقارنة للتجارة فلو اشترى شيئا للقنية ناويا أنه إن وجد ربحا باعه لا زكاة عليه و لو نوى التجارة فيما خرج من أرضه العشرية أو الخراجية أو المستأجرة أو المستعارة : لا زكاة عليه و لو قارنت ما ليس بدل مال بمال كالهبة و الصدقة و الخلع والمهر و الوصية لا تصح على الصحيح . وفي السائمة لا بد من قصد إسامتها للدر و النسل أكثر الحول فإن قصد به التجارة ففيها زكاة التجارة إن قارنت الشراء و إن قصد به الحمل أو الركوب أو الأكل فلا زكاة أصلا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 267)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء.
المعیار الشرعی (891)
۵/۲/۶/۲:البضاعۃ قید التصنیع، تزکی بقیمتھا السوقیۃ بحالتھا یوم الوجوب، فان لم تعرف لھا قیمۃ سوقیۃ تزکی تکلفتھا۔

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۸ رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب