79612 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں ایک ان کی بیوہ، جس سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، ایک باپ شریک بہن عنبرین افشاں اور تین باپ شریک بھائی مجاہد احمد، منصور احمد اور وسیم احمد ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کا ترکہ ان کے ورثاء کے درمیان کس طرح تقسیم ہو گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے مرحوم بھائی نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاوران کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب ہو، يہ سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلے ان کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ، اگرکسی نے بطورِ تبرع یہ اخراجات اداکر دیے ہوں تو پھر یہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد ان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک ان کی جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس کو اٹھائیس(28) حصوں میں برابر تقسيم كر كے مرحوم کی بیوی کو سات (7)حصے،ہربھائی کو چھ(6) حصے اور بہن کو تین(3) حصے دے دیے جائیں، تقسیم ِ میراث کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:
نمبر شمار |
ورثاء |
عددی حصہ |
فیصدی حصہ |
1 |
بیوہ |
7 |
25% |
2 |
علاتی بھائی |
6 |
21.428% |
3 |
علاتی بھائی |
6 |
21.428% |
4 |
علاتی بھائی |
6 |
21.428% |
5 |
بہن |
3 |
10.714% |
حوالہ جات
القرآن الکریم : [النساء: 12]
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ }
السراجی فی المیراث:(ص:19)، مکتبۃ البشری:
العصبات النسبية ثلاثة: عصبة بنفسه، وعصبة بغيره وعصبة مع غيره، أما العصبة بنفسه فكل ذكر لاتدخل في نسبته إلى الميت أنثى ، وهم أربعة أصناف: جزء الميت، وأصله، وجزء أبيه وجزء جده، الأقرب فالأقرب۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
27/رجب المرجب 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |