021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
حاملہ بیوی کو حالت حمل میں والدین یا بھائی کے گھر چھوڑنا
76734نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ہمارے خاندان میں کئی سالوں سے یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو حمل ٹھہر جائے، تو اس کا خاوند اس کو  بچوں سمیت باپ کے گھر چھوڑ آتا ہے، اگر باپ موجود نہ ہو  تو بھائی کے گھر چھوڑ آتا  ہے، اور جب تک بچہ کی پیدائش نہ ہوجائے، بیوی اور بچوں کے سارے اخراجات باپ یا بھائی اٹھاتے ہیں، اس رواج کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے، کیا اس طرح کرنا صحیح ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعتِ مطہرہ نے بیوی اور بچوں کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ واجب قرار دیا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ رواج ، جس میں شوہر حاملہ بیوی کو بچوں سمیت والد  یا بھائی کے گھر چھوڑ آتا ہے، اور بیوی بچوں کے سارے اخراجات  والد  یا بھائی اٹھاتے ہیں، اگر وہ  لوگ خوشی سے کرتے ہیں  پھر تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہ رسم و رواج کی وجہ سے مجبوری میں کرتے ہیں تو یہ سب کرنا   درست  نہیں  ۔  لہذا اس  رسم و رواج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:
(ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته.
 (الدر المختار:3/572)
و فی الھندیۃ:
إن كانت المرأة تطيق الجماع،  فلها النفقة. سواء كان الزوج يطيق الجماع، أو لا يطيق، كذا في المحيط. (1/546)

عبدالعظیم

دارالافتاء، جامعۃالرشید ،کراچی

19/رجب 1443 ھ        

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالعظیم بن راحب خشک

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب