021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مار پیٹ اور والدین کی زہرکھانے کی دھمکی سے مجبور ہوکر طلاق نامے پر دستخط کرنا
79580طلاق کے احکامتحریری طلاق دینے کا بیان

سوال


گزارشِ خدمت یوں ہے کہ سائل کا مئی 2022 کو ایک بیوہ کے ساتھ دوسرا نکاح ہوا،چندہ ماہ گزرنے کے بعد سائل کے گھر والوں کو دوسرے نکاح کا علم ہوا تو انہوں نے زبردستی ڈرا دھمکا کر طلاق نامے پر مجھ سے دستخط کروالئے،جس میں ایک ہی طلاق درج تھی،پھر سائل نے ایک ماہ بعد اسی خاتون سے نئے مہر کے ساتھ دوگواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کیا۔

اب آپ سے التماس ہے کہ شریعت مطہرہ میں ہمارے لئے کیا حکم ہے؟برائے مہربانی میری راہنمائی فرماکر مشکور وممنون فرمائیں،عین نوازش ہوگی۔

تنقیح: جبر کی وضاحت سائل نے یہ کی ہے کہ گھر والوں کو جیسے ہی نکاح کی اطلاع ملی تو انہوں نےاسے ایک کمرے میں بند کرکے مار پیٹ کی اور گھر کے افراد خانہ مع والدین کے سب نے زہر کھانے کی دھمکی بھی دی اور زبردستی کاغذاتِ طلاق پر دستخط لئے،جس میں ایک طلاق لکھی ہوئی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے کی صورت میں سائل کوگھر والوں کی طرف سے مزید ایسی مار پیٹ کا غالب گمان تھا جسے آپ برداشت نہیں کرسکتے تھے اور ان سے جان چھڑانے کی بھی کوئی صورت نہیں نظر آرہی تھی،یا پھراسےاس بات کا یقین یا غالب گمان تھا کہ گھر کے افراد زہر کھانے کی دھمکی دینے میں سنجیدہ ہیں،محض دباؤ ڈالنا مقصود نہیں اور دستخط نہ کرنے کی صورت میں ان میں سے کوئی زہر کھالے گا تو پھر ایسی مجبوری کی صورت میں اس طلاق نامے پر دستخط کرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور سائل کا اس خاتون سے نکاح بدستور باقی رہا تھا،اس لئے تجدید نکاح کی کوئی  ضرورت نہیں تھی۔

جبکہ بصورتِ دیگر(یعنی سائل کو دستخط نہ کرنے کی صورت میں ناقابل تحمل مار پیٹ کا غالب گمان بھی نہیں تھا اور گھر کے افراد میں سے کسی کے زہر کھانے کی دھمکی پر عمل کرنے کا یقین یا غالب گمان بھی نہیں تھا) اس طلاق نامے پر دستخط کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی تھی،لیکن طلاق کے رجعی  ہونے کی وجہ سے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں تھی،بلکہ عدت کے دوران قولی یا عملی طور پر رجوع کرلینا کافی تھا،البتہ اس صورت کے مطابق اب آئندہ کے لئے سائل کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية" (1/ 379):
"رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان".
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع "(7/ 175):
"وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان: نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعا كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر، ومنهم من قدره بعدد ضربات الحد، وأنه غير سديد؛ لأن المعول عليه تحقق الضرورة فإذا تحققت فلا معنى لصورة العدد، وهذا النوع يسمى إكراها تاما، ونوع لا يوجب الإلجاء والاضطرار وهو الحبس والقيد والضرب الذي لا يخاف منه التلف، وليس فيه تقدير لازم سوى أن يلحقه منه الاغتمام البين من هذه الأشياء أعني الحبس والقيد والضرب، وهذا النوع من الإكراه يسمى إكراها ناقصا".
"الدر المختار " (6/ 129):
"(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى ".
"البحر الرائق " (3/ 264):
"وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

28/رجب1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے