021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کو دئیے گئے پیسے قرض شمار ہوں گے یا ہبہ؟
76074ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میں عارف خمیسہ ہوں۔ آج سے 16 سال پہلے میں جاب کرتا تھا۔ والد صاحب اور میرے بڑے بھائی نے میری جاب چھڑوا کر اپنے ساتھ کام پر لگایا، اور مجھے تنخواہ کے نام پر 1000 روپے، پھر 3000 تک دئیے جاتے تھے، اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں دیا جاتا تھا اور بولا جاتا تھا ساتھ کام ہے،میرے بھائی اپنی مرضی کے پیسے اٹھاتا تھا۔ جب بھی میں کوئی دوسرا کام کرتا یا الگ کام کرنا چاہتا تو منع کردیا جاتا؛ کیونکہ دکان کا زیادہ کام میں سمجھتا تھا۔ مجھے side کام کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ میری شادی کے وقت میرے سسرال والوں سے بھی میرے گھر والوں نے یہی کہا کہ دونوں بھائی اور باپ ساتھ ہیں۔ شادی کے بعد بھی مجھے اتنے زیادہ پیسے نہیں دئیے جاتے تھے کہ میں اپنی بیوی کا خرچہ اٹھاسکوں، پھر بچہ ہونے کے اور بہت مسئلے مسائل کے بعد والد صاحب نے میرا کام الگ کردیا، جس پر میرے گھر والوں کو اعتراض تھا کہ بڑے بھائی کی دکان کیسے چلے گی، جو اس نے ایک سال میں بند کردی۔ والد صاحب نے جب مجھے الگ کیا تو مارکیٹ میں ایک آدمی کے ساتھ پارٹنر شپ پہ کام دلوایا اور اس مقصد کے لیے 15 لاکھ روپے دئیے، پھر جب میرا partner کام سے الگ ہوا تو اس وقت مجھے والد صاحب نے مزید 20 لاکھ روپے دئیے۔ والد صاحب نے ان تمام پیسوں کا کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ ایک دو دفعہ خرچی مانگی، بعد میں وہ بھی نہیں مانگی۔ سات سال سے وہ رقم نہیں مانگی، نہ کبھی کوئی حساب کتاب لیا۔ میں اگر ان سے کبھی ادھار لیتا تو وہ فورا مانگ لیتے اور میں بھی وقت پر ادھار واپس دیتا۔  

اب میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے تو اس رقم کا کیا حکم ہوگا؟ بڑے بھائی کو بھی ابو نے کام کراکے دیا اور کبھی رقم نہیں مانگی، جس دکان میں ہم شروع سے تھے وہ بڑے بھائی ہی کو دی گئی تھی۔ ہمارے ایک اور  بھائی ہے، ان کو کام کی پوری آزادی دی، اس نے شروع سے اپنا کام کیا، اس نے نہ کبھی ابو سے رقم لی، نہ ابو کے ساتھ کام کیا۔

سوال یہ ہے کہ جو رقم مجھے دی گئی ہے، کیا وہ وراثت ہوگی؟ نیز اتنے سالوں تک مشترکہ کاروبار سے دونوں بھائیوں نے جو رقم اٹھائی، اس میں بڑے بھائی نے زیادہ رقم اٹھائی اور مجھے کم دی گئی، اگر اس کا حساب یعنی دونوں کو دی ہوئی رقم کا فرق نکالا جائے تو وہ اس رقم سے زیادہ بنتا ہے جو والد صاحب نے مجھے دئیے۔ برائے مہربانی ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے راہنمائی فرمائیں۔  


 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اگر والد صاحب اپنے کسی بیٹے کو صراحتا بلاعوض مالک بناکر رقم دے، یا مالک بنانے کی تصریح نہ کرے، لیکن تملیک کے قرائن موجود ہوں تو وہ رقم بیٹے کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، وہ میراث کا حصہ نہیں بنتی۔ لیکن اگر والد صاحب نے نہ تملیک کی تصریح کی ہو، نہ ہی اس کے قرائن موجود ہوں تو ایسی صورت میں وہ رقم بیٹے کے ذمے والد صاحب کا قرض شمار ہوگا، اگر والد صاحب مطالبہ کرے تو انہیں لوٹانا لازم ہوگا، اور اگر وہ فوت ہوجائے تو وہ رقم میراث کا حصہ بن کر تمام ورثا میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب نے یہ رقم آپ کو بلا عوض مالک بناکر دی تھی، قرض کے طور پر نہیں دی تھی، اس لیے مذکورہ رقم ترکہ میں شامل نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
تنقيح الفتاوى الحامدية (4/ 425):
دفع إلى ابنه مالًا فأراد أخذه صدق أنه دفعه قرضًا؛ لأنه مملك.  دفع إليه دراهم فقال له أنفقها ففعل فهو قرض كما لو قال اصرفها إلى حوائجك، ولو دفع إليه ثوبا وقال اكتس به ففعل يكون هبة ؛ لأن قرض الثوب باطل، لسان الحكام في هبة المريض وغيره.  دفع إلى غيره دراهم فأنفقها، وقال صاحب الدراهم أقرضتك وقال القابض لا بل وهبتني، كان القول قول صاحب الدراهم، من نكاح الخانية.  
رد المحتار (5/ 710):
فروع: دفع دراهم إلى رجل وقال: أنفقها ففعل فهو قرض، ولو دفع إليه ثوبًا وقال ألبسه نفسك فهو هبة. والفرق مع أنه تمليك فيهما أن التمليك قد يكون بعوض، وهو أدنى من تمليك المنفعة، وقد أمكن في الأول؛ لأن قرض الدراهم يجوز، بخلاف الثانية، ولوالجية.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

    25/رجب/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب