021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبہ سے متعلق ایک صورت کا حکم (اپنی زندگی میں ہی منہ بولے بیٹے کو گھر خرید کر دینا اور مالک بنانا)
76072ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میرے سگے ماموں کل 6 بہن بھائی ہیں، 3 ماموں کئی سال سے امریکہ / کینیڈا کے شہری ہیں، 1 بہن (میری سگی والدہ) اور 2 ماموں (بشمول میرے منہ بولے باپ) کراچی کے رہائشی ہیں۔ ان کے والدین، یعنی میرے نانا، نانی کا کئی سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔

میرے سب سے بڑے ماموں مرزا شعیب حسن برلاس کی اپنی کوئی اولاد نا ہونے کے باعث انہوں نے میری پیدائش (جون 1986ء) کے بعد مجھے گود لے لیا تھا۔ 1998ء میں انکی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد 1999ء میں دوسری شادی كی مگر ان سے بھی کوئی اولاد نہیں ہے۔ میرے مستقبل کے مالی معاملات کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے اور میرے لیے میرا کوئی ذاتی مکان لینا چاہتے تھے۔  اس کے علاوہ کچھ ضرورت مند اَقرَاباء كی بھی کچھ مالی مدد کرنا چاہتے تھے . (جو کے انہوں نے كی بھی ). دیگر مقاصد بھی رہے ہوں گے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے  انہوں نے گلشن اقبال بلاک 2 کراچی میں واقع اپنا 400 گز کا ذاتی مکان ( جس کے وہ اکیلے مالک تھے ) بیچنے كی کوشش میں ناکامی کے بعد ، فریضۂ حج پہ روانگی سے قبل %33 كی وصیت كی (%31 میرا اور %2 دیگر ضرورت مندوں کا) اور اس وصیت کو باقاعدہ گواہوں كی موجودگی میں سرکاری دفتر میں رجسٹر کروا دیا۔ تاہم گھر کو بیچنے كی کوشش جاری رکھی اور غالباً نومبر / دسمبر 2017ء میں اس گھر کا سودا طے پا گیا اور 2 مہینے کے عرصے میں ان کو اس گھر کے عوض رقم وصول ہو گئی (31000000) 3کروڑ 10لاکھ۔

اس درمیان میں میرے ماموں ( منہ بولے باپ ) نے خود میرے لیے ایک نیا گھر پسند کیا اور بعد میں مجھے لے جا کر دکھایا جو مجھے بھی پسند آیا اور اس ہی دن گھر کے مالک سے ہمارا سودا طے پا گیا۔ گھر خریدنے کے لیے میرے ماموں ( منہ بولے باپ ) نے مجھے رقم ہدیہ  كی جو کے انہوں نے میرے بینک اکاؤنٹ میں مختلف پے آرڈر بنا کر ٹرانسفر کر دی، یعنی (18200000)1کروڑ82لاکھ۔

ہدیہ میں ملنے والی اس رقم سے میں نے اپنے لیے  اپریل 2018ء میں وہی گھر خریدا جو ہم نے پسند کیا تھا۔ میں اپنے گھر کا بلا شرکت غیرے مالک ہوں اور کاغذات میں بھی تمام مالکانہ حقوق میرے نام پہ درج ہیں۔ الحمدُللہ میرے ماموں (منہ بولے باپ) حیات ہیں اور ہم میرے ہی گھر میں رہتے ہیں۔ میرے لیے وہی گھر کے سربراہ  كی حیثیت رکھتے ہیں۔

17رمضان 2021ء ان کو فالج کا اٹیک ہوا جس كی وجہ سے اب ذہنی طور پہ مکمل صحت مند نہیں رہے ۔  وہ پنج وقتہ باجماعت نمازی اور معاملات میں شریعت کا خیال رکھنے والے مسلمان ہیں ( جب تک صحت مند تھے ) اور سب کے ساتھ بھلائی کا رویہ رکھتے۔ میرا سوال مجھے ملنے والے ہدیہ کے حوالے سے ہے جو میرے ماموں ( منہ بولے باپ ) نے مجھے میرا ذاتی مکان خریدنے کے لیے دیا۔  میرے دیگر مامؤں کا کہنا ہے کہ یہ سب مال ہمارا ہے اور تمھارا اس پہ کوئی حق نہیں۔ برائے مہربانی اس حوالے سے میری رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ اپنی زندگی میں بحالت صحت  وبقاء  ہوش و حواس اپنی مملوکہ  جائیداد  میں  ہر قسم کے جائز تصرفات کا  حق حاصل ہے، چنانچہ اگر کوئی اپنی پوری جائیداد یا اس کا کچھ حصہ  کسی کو بطور ہبہ دینا چاہے ہو تودے سکتا ہے اور ہبہ کرنے کے بعد قبضہ دے دینے سے وہ مال اس کی ملکیت سے بھی نکل جائے گا۔

چنانچہ اگر سوال میں مذکورہ صورت درست ہے تو جو مال  آپ کے ماموں (منہ بولے باپ ) نے اپنی جائیداد میں سے  آپ کو ہدیہ کر کے آپ کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیا   تھا  اور ساتھ ہی آپ کو اس میں تصرف کا حق بھی دے دیا تھا ،  اس  مال میں آپ کی ملکیت ثابت ہو چکی تھی اور آپ شرعا اس کے مالک  بن گئے تھے۔ چنانچہ اس سے خریدا گیا گھر بھی آپ ہی  کا ہے  اور آپ کے دیگر مامؤں کا یہ کہنا کہ اس مال میں آپ کا کوئی حق نہیں  بلکہ وہ سب ان کا ہے درست نہیں ہے۔  لہذا  آپ کے ماموں (منہ بولے باپ) کی وفات کے  بعد دوسرے وارثوں کا اس خاص  گھر  میں کوئی حق نہیں ہو گا  اور نہ   وہ اس میں کسی قسم کے حصے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار و   حاشية ابن عابدين :(5/ 688)
(و)شرائط صحتها(في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح(وركنها) هو (الإيجاب والقبول) كما سيجيء(وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم).
وفي حاشيته : (قوله: هو الإيجاب) وفي خزانة الفتاوى: إذا دفع لابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة التمليك بيري. قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإيجاب والقبول لا يشترط، بل تكفي القرائن الدالة على التمليك كمن دفع لفقير شيئا وقبضه، ولم يتلفظ واحد منهما بشيء، وكذا يقع في الهداية ونحوها فاحفظه، ومثله ما يدفعه لزوجته أو غيرها قال: وهبت منك هذه العين فقبضها الموهوب له بحضرة الواهب ولم يقل: قبلت، صح لأن القبض في باب الهبة جار مجرى الركن فصار كالقبول ولوالجية. وذكر الكرماني أن الإيجاب في الهبة عقد تام.
الفتاوى الهندية:(4/ 377)
ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك، والإذن تارة يثبت نصا وصريحا وتارة يثبت دلالة فالصريح أن يقول: اقبضه إذا كان الموهوب حاضرا في المجلس ويقول اذهب واقبضه إذا كان غائبا عن المجلس ثم إذا كان الموهوب حاضرا، وقال له الواهب: اقبضه فقبضه في المجلس أو بعد الافتراق عن المجلس صح قبضه وملكه قياسا واستحسانا، ولو نهاه عن القبض بعد الهبة لا يصح قبضه لا في المجلس ولا بعد الافتراق عن المجلس، وإن لم يأذن له بالقبض صريحا ولم ينهه عنه إن قبضه في المجلس صح قبضه استحسانا لا قياسا، وإن قبضه بعد الافتراق عن المجلس لا يصح قبضه قياسا واستحسانا، ولو كان الموهوب غائبا فذهب وقبض: إن كان القبض بإذن الواهب جاز استحسانا لا قياسا، وإن كان بغير إذنه لا يجوز قياسا واستحسانا، هكذا في الذخيرة.
فقه البیوع علي المذاهب الأربعة (1/399):
القبض فی الدار التی یسکنها البائع :
ثم اشترط الفقهاء لصحة تسلیم الدار أن تکون خالیة من أمتعة البائع. فإن کانت مشغولةً بها لایتحقق القبض حتی یفرغها. ولکن جاء فی الفتاوی الهندیة عن فتاوی أبی اللیث "فإن أذن البائع للمشتری بقبض الدار والمتاع، صح التسلیم؛ لأن المتاع صار ودیعةً عند المشتری". وکذلك ذکروا حیلةً فی نفاذ هبة ما هو مشغول بمتاع البائع فقالوا: وحیلة هبة المشغول أن یودع الشاغل أولاً عند الموهوب له، ثم یسلمه الدار مثلاً،فتصح لشغلها بمتاع فی یده.
ویمکن أن یخرج علی ذلك ما یقع کثیراً من أن الأب یهب داراً لابنه، وهو ساکن معه فیها بمتاعه. فلو أذن الأب ابنه بقبض متاعه ودیعةً، وسجل الدار باسم ابنه بعد الهبة، وصرح بأن کونه یسکن الدار بعد ذلك موقوف علی إذن الإبن علی سبیل العاریة، وقبل ذلك الإبن، ینبغی أن یعتبر قبضاً کافیاً لتمام الهبة، والله سبحانه أعلم.

محمد انس جمیل

دارالافتاء جامعۃالرشید کراچی

24، رجب المرجب1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب