76088 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ورثامیں مرحوم کاترکہ کس حساب سےتقسیم ہوگا،یعنی کس کوکتناملےگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
میت کےکل ترکہ میں سےسب سےپہلےتجہیزوتکفین پرجواخراجات ہوئےوہ نکالےجائیں گے،اس کےبعد اگرمیت پرقرض ہواتوقرض کی ادائیگی کی جائیگی،پھر اگرمیت نےکوئی جائزوصیت کی ہوتوثلث مال کےبقدروصیت پوری کی جائےگی ،اس کےبعدجوترکہ بچےگاوہ وورثاءمیں شرعی حصوں کےمطابق تقسیم ہوگا۔ صورت مسئولہ میں میت کی ایک بیوی اورچاربیٹیاں اورپانچ بھتیجےورثاءمیں شامل ہیں ،شریعت نےان سب کاوراثت میں الگ الگ حصہ مقررکیاہے،لہذامرحوم کےترکہ کےکل ساٹھ حصےبنائےجائیں گے،جن میں سے چوتھائی 15/60 بیوی کاہوگا،اوردوتہائی 40/60بہنوں کوملیں گے باقی پانچ حصے5/60 بھتیجوں پربرابر تقسیم کیے جائیں گے۔فیصدکےاعتبارسےحاجی سہیل احمد(مرحوم)کی بیوی کو 25% اوربہنوں کو66.6666%برابرتقسیم کردیا جائےگا،بقیہ ترکہ 8.3333%مرحوم کےبھتیجوں میں برابرتقسیم ہو گا۔ جس کی مزیدتفصیل نیچےدیےگئےٹائیبل پرملاحظہ فرمائیں :
نمبرشمار |
ورثہ |
عددی حصے |
فیصدی حصے |
1 |
بیوی |
15 |
25% |
2 |
بہن |
10 |
16.6667% |
3 |
بہن |
10 |
16.6667% |
4 |
بہن |
10 |
16.6667% |
5 |
بہن |
10 |
16.6667% |
6 |
بھتیجا |
1 |
1.6666% |
7 |
بھتیجا |
1 |
1.6666% |
8 |
بھتیجا |
1 |
1.6666% |
9 |
بھتیجا |
1 |
1.6666% |
10 |
بھتیجا |
1 |
1.6666% |
|
مجموعہ |
60 |
100 |
میت کی چاربہنیں اورایک بھائی مرحوم جومیت کی وفات سےپہلےوفات پاچکےہیں ،وہ میت کےترکہ میں حصہ دارنہیں ہوں گے،کیونکہ جوورثہ میت( مورث )کی حیات میں وفات پاجائیں ،اسےمورث کےترکہ میں سے وراثت نہیں دی جائےگی۔
حوالہ جات
قال اللہ تبارك وتعالي:
ﵟوَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّكُمۡ وَلَدٞۚ فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٖۗﵞ [النساء: 12].
ﵟفَإِن كُنَّ نِسَآءٗ فَوۡقَ ٱثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖﵞ [النساء: 11]
«المبسوط للسرخسي» (29/ 146):
ولا مزاحمة بين العصبات وأصحاب الفرائض،ولكن أصحاب الفرائض مقدمون فيعطون فريضتهم، ثم ما بقي للعصبة قل، أو كثر.
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 774):
ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل)
«منحة السلوك في شرح تحفة الملوك» (ص437):
(أما العصبة بنفسه)۔۔۔وهم أربعة أصناف: جزء الميت) أي البنون، ثم بنوهم وإن سفلوا، (ثم أصل الميت) أي الأب، ثم الجد أب الأب وإن علا، (ثم جزء أبيه) أي الأخوة، ثم بنوهم وإن سفلوا (ثم جزء جده) أي الأعمام، ثم بنوهم وإن سفلوا
عبدالقدوس
دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی
۲۷رجب ۱۴۴۳
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالقدوس بن محمد حنیف | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |