021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ،والدین اوربہن بھائیوں میں وراثت کی تقسیم
76269میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

 عرض ہیکہ میرابیٹافوج میں ملازم تھااوردوران ملازمت کینسرکامریض ہوگیا،کافی علاج کےبعدفوج کی طرف سے09/02/2020کواس کا میڈیکل بورڈہوگیااوراس کےعوض اس کوپنشن اوراکٹھی رقم ملنامشکل تھی جو کہ مبلغ 24لاکھ بنتی تھی جووہ اپنی حیات میں فوج میں وصول نہ کرسکااور13/11/2020کواس کاانتقال ہوگیا۔اب اس کی وفات کےبعداس رقم کاچک اس کی بیوہ کےنام موصول ہواہے۔اس نےاپنی زندگی میں وصیت کی تھی کہ  میرےمال کا75%فیصد میری بیوی کواور25%فیصدمیری والدہ کوملےگا۔اب پوچھنا یہ ہے کہ  مرحوم  کی جائیداد،ورثاءمیں کیسےتقسیم ہوگی اوران میں سےہرایک کو کتنا حصہ ملےگا؟ورثاء میں ایک بیوہ اورایک والدہ اوروالد،اوران کےچاربھائی اورایک بہن شامل ہیں ۔)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرحوم کےترکہ میں سےسب سےپہلے تجہیزوتکفین پرجو اخراجات ہوئےوہ نکالےجائیں گے،اس کےبعد اگرمیت پرقرض ہواتوقرض کی ادائیگی کی جائیگی،پھر اگرمیت نےکوئی جائزوصیت کی ہوتوثلث مال کےبقدروصیت پوری کی جائےگی،اس کےبعدترکہ میں سےجوبچےگاوہ اس کےورثاء میں شرعی حصص کےمطابق تقسیم ہوگا۔

لہذامرحوم کےکل ترکہ میں بارہ  حصےبنائےجائیں گےجن میں سےبیوہ کوچوتھائی 3/12اوروالدہ کوچھٹاحصہ  2/12 دیاجائےگاباقی جوسات حصے12/7بچیں گےوہ والدکےہوں گے،لہذاوراثت میں  بہن بھائیوں کاحصہ نہیں ہوگا۔فیصدکےاعتبارسےمرحوم کاترکہ یوں تقسیم ہوگاکہ بیوی کو25%فیصد اوروالدہ کو16.6667% فیصدملے گااور مرحوم کےوالد کوبقیہ 58.3333%فیصدملےگا۔

فیصدکےاعتبارسےہرایک کاحصہ درج ذیل ٹائیبل پرملاحضہ فرمائیں :

نمبرشمار

ورثہ

عددی حصے

فیصدی حصے

1

بیوی

3

25%

2

والدہ

2

16.6667%

3

والد

7

58.3333%

 

مجموعہ

12

100

حوالہ جات
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (7/ 57):
لأن ‌الإرث ‌إنما ‌يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 649):
(و) كونه (غير وارث) وقت الموت
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (4/ 502):
لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص
«تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي» (6/ 229):
والمراد من ‌التركة ‌ما ‌تركه ‌الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه
قال اللہ عزوجل:
ﵟفَإِن كَانُوٓاْ أَكۡثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمۡ شُرَكَآءُ فِي ٱلثُّلُثِۚ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصَىٰ بِهَآ أَوۡ دَيۡنٍ غَيۡرَ مُضَآرّٖۚ وَصِيَّةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٞﵞ [النساء: 12] 
ﵟوَلَهُنَّ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡتُمۡ إِن لَّمۡ يَكُن لَّكُمۡ وَلَدٞۚﵞ [النساء: 12] 
ﵟفَإِن كَانَ لَهُۥٓ إِخۡوَةٞ فَلِأُمِّهِ ٱلسُّدُسُۚ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ يُوصِي بِهَآ أَوۡ دَيۡنٍۗ ﵞ [النساء: 11] 
«المبسوط للسرخسي» (29/ 146):
ولا مزاحمة بين العصبات وأصحاب الفرائض،ولكن أصحاب الفرائض مقدمون فيعطون فريضتهم، ثم ما بقي للعصبة قل، أو كثر.
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 762):
والمستحقون للتركة عشرة أصناف مرتبة كما أفاده بقوله (فيبدأ بذوي الفروض) أي السهام المقدرة وهم اثنا عشر من النسب ثلاثة من الرجال وسبعة من النساء واثنان من التسبب وهما الزوجان (ثم بالعصبات) أل للجنس فيستوي فيه الواحد والجمع وجمعه للازدواج (النسبية) لأنها أقوى (ثم بالمعتق) ولو أنثى وهو العصبة السببية۔۔۔۔۔۔۔الخ

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۸رجب المرجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب