021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غصے میں تین مرتبہ "تم آزاد ہو” کہنے کا حکم
79710طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میرے سسرال والوں نے میرے اوپر الزام لگایا کہ میں نے ان کی ماں پر ہاتھ اٹھایا ہے، جس کی وجہ سے میرے شوہر نے مجھے کہا کہ گھر جاؤ، تم آزاد ہو، پھر کہا کوئی فائدہ نہیں، تم آزاد ہو اور یہ بھی کہا کہ میری طرف سے آزاد، ختم۔پیپر مل جائے گا۔ یہ واقعہ آٹھ مئی کا ہے، اس کے بعد میں اپنی امی کے گھر آگئی، کچھ دنوں بعد ہمارے معاملات بہتر ہونے لگے، میں نے یوٹیوب پر مفتی طارق مسعود صاحب کا بیان سنا تو بہت پریشان ہوئی، میں نے اپنے شوہر کو بتایا، اس نے کہا میری طلاق دینے کی کوئی نیت نہیں تھی، میں تمہیں ڈرانے کے لیے کہہ رہا تھا، وہ اہلِ حدیث ہیں، ان کے ہاں طلاق صرف لفظِ طلاق سے ہوتی ہے، اب وہ قرآن اٹھا کر کہنے کو تیار ہیں کہ ان کی سوچ اور نیت میں طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ازراہ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

وضاحت: سائلہ نے بتایا کہ ہمارے عرف اور ماحول میں یہ الفاظ عام طور پر طلاق کے لیے نہیں بولے جاتے، اسی لیے مجھے علم بھی نہیں تھا کہ اس سے بھی طلاق ہوتی ہے، بلکہ جب میں نے مفتی طارق مسعود صاحب کا بیان سنا تومجھے علم ہوا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لفظ" آزاد "اپنی اصل وضع کے لحاظ سے طلاق کے کنایہ الفاظ میں سے ہے،جس سے عام نارمل حالت  میں طلاق واقع ہونے کا مدار نیت پر ہوتا ہے،البتہ ٕغصے اور مذاکرہ طلاق کی حالت میں اس سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،تاہم اگر یہ لفظ بولنے والے شخص کی برادری اور وہاں کےلوگوں  کے عرف میں طلاق کے معنی کے لیے اس طرح متعین ہوجائے کہ جب بھی شوہر بیوی کے سامنے یہ لفظ بولے تو اس سے طلاق ہی کا معنی مراد لیا جاتا ہو،اس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد نہ ہوتا ہو تو پھر اس صورت میں اس پر صریح طلاق کا حکم لگے گا،یعنی اس کے ذریعے طلاق رجعی واقع ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ سائلہ کے عرف میں یہ لفظ طلاق کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ عام طور پر غیرِ طلاق کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے۔ اس لیے ان الفاظ پر کنایہ کا حکم لگے گا اور چونکہ یہ الفاظ شوہر نے غصے کی حالت میں کہے ہیں اس لیے پہلی مرتبہ شوہر کے الفاظ" گھر جاؤ، تم آزاد ہو" کہنے سے آپ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو گئی، اس میں شوہر کی نیت کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ قرینہٴ طلاق ہونا کافی ہے، اس کے بعد شوہر کے دو مرتبہ مزید "آزاد ہو" کے الفاظ کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،(لأن البائن لايلحق البائن) لہذا فریقین کے درمیان نکاح فوراً ختم ہو گیا، البتہ عدت کے دوران اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے کی اجازت ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 374) دار الفكر،بيروت:
" ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".
رد المحتار (3/ 308) دار الكتب العلمية:
"(قوله :لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن".

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

8/شعبان المعظم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب