021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
افریقہ کےملک”بوٹسوانا” میں ہیلتھ انشورنس کی سہولت لینے کا حکم
79712جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے ملک بوٹسوانا میں میڈیکل کی سہولت بہت مہنگی ہے، ڈاکٹر کی فیس، دوائیاں سب بہت مہنگا ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ یا ایمرجنسی پیش آجائے تو لاکھوں کے اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں، یہاں پورے ملک میں مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں ہیں، تقریباً دوفیصد، یعنی آٹھ دس ہزار تک مسلمان ہوں گے، اور یہاں پر ہیلتھ انشورنس کا کوئی متبادل جیسے تکافل بھی نہیں ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہےکہ کسی ادارہ کی طرف سے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کروانا لازمی ہوتا ہے اور بعض اوقات ادارہ کی طرف سے لازمی تو نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی مذکورہ بالامسائل کی وجہ سے ادارہ یہی چاہتا ہےکہ ملازمین اپنی ہیلتھ انشورنس کروائیں۔ اوپر ذکر کئے گئے مسائل کی وجہ سے جو مسلمان کسی ادارہ کے ماتحت نہ ہوں وہ بھی عام طور پر ہیلتھ انشورنس کی سہولت لے لیتے ہیں۔

تو اس مجبوری کی وجہ سے کیا مسلمان bomaidجو کہ بوٹسوانا میں میڈیکل انشورنس کی ایک سہولت ہے اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟کیا bomaidسے میڈیکل کی سہولیات کے لئے فائدہ اٹھاناجائز ہے؟اگر ناجائز ہے تو اس کا شرعی متبادل بھی ازراہِ کرم بیان فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مروجہ انشورنس کمپنیوں کے معاملات میں شرعی اعتبار سے سود، قمار (جوا) اور غرر (غیریقینی صورتِ حال) کی خرابیاں پائی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے ان کمپنیوں کی آمدن ناجائز اور حرام ہے، لہذا عام حالات میں یہی حکم ہے کہ کسی بھی شخص کا حکومت سے ہیلتھ انشورنس کی پالیسی لے کر اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں، اگر قانونی طور پر کوئی شخص انشورنس پالیسی لینے کا پابند ہو تو وہ اپنی ادا کی گئی قسطوں کی رقم سے زائد رقم یا سہولت حکومت سے نہ لے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جو لوگ کسی ادارے یا کمپنی کے ملازم ہوں اور ادارے کی طرف سے ان کے لیے ہیلتھ انشورنس کروانا ضروری ہو تو ان کے لیے ہیلتھ انشورنس کروانا جائز ہے، پھر اگر کمپنی یا ہسپتال کی انتظامیہ خود انشورنس کمپنی سے علاج کے اخراجات وصول کرے تو ملازم کے لیے انشورنس کمپنی کے ذریعہ علاج کروانا جائز ہے، البتہ اگر ملازم کو خود انشورنس کمپنی سے علاج کے اخراجات وصول کرنے پڑتے ہوں تو ایسی صورت میں صاحبِ ثروت یعنی مالدار شخص کے لیے  ادا کی گئی رقم سے زیادہ اخراجات وصول کرنا جائز نہیں۔

البتہ اگر ملازم تنگ دست ہو اور معاشی تنگی کے باعث میڈیکل کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو ، اسی طرح وہ شخص جو کسی کمپنی یا حکومت وغیرہ کا ملازم نہیں، مگر وہ علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تو ایسی مجبوری کی صورت میں حضرت امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ تعالی کے مذہب پربوٹسوانا میں ہیلتھ انشورنس کے ذریعہ میڈیکل کی سہولت لینا صرف اس شخص کے لیے جائز ہے جو کسی دوسرےملک کا باشندہ ہو اوروہ  اپنی ضرورت کے پیشِ نظر بوٹسوانا میں رہائش پذیر ہو، جس کو فقہائے کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں "مستامن"(ویزہ لے کر آنے والا شخص) کہا جاتا ہے،  البتہ ایسے مسلم شخص کو ہیلتھ انشورنس کی  پالیسی لینے کی اجازت نہیں  ہےجس کا پیدائشی وطن بوٹسوانا  ہو یا یہ کہ اس نے وہیں  اسلام قبول کیا ہو، کیونکہ حضراتِ طرفین رحمہمااللہ کے نزدیک مستامن کے لیے غیرمسلم ملک یعنی دارالحرب میں کسی حربی شخص کا مال اس کی اجازت اور رضامندی سے استعمال کرنا جائز ہے، اگرچہ وہ مال عقدِ ربا، عقدِ قمار یا کوئی مرداروغیرہ بیچنے کے ذریعہ حاصل کیا ہو، جیسا کہ شرح السیر الکبیر اور شامیہ وغیرہ میں تصریح ہے،لہذا مجبوری کی صورت میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات
شرح السير الكبير للشیبانی(4/ 102):
وإذا دخل المسلم دار الحرب بأمان فلا بأس بأن يأخذ منهم أموالهم بطيب أنفسهم بأي وجه كان؛ لأن أموالهم لا تصير معصومة بدخوله إليهم بأمان، ولكنه ضمن بعقد الأمان ألا يخونهم ، فعليه التحرز عن الخيانة ، وبأي سبب طيب أنفسهم حين أخذ المال ، فإنما أخذ المباح على وجه منعه عن الغدر ، فيكون ذلك طيبا له ، الأسير والمستأمن في ذلك سواء ، حتى لو باعهم درهما بدرهمين أو باعهم ميتة بدراهم ، أو أخذ مالا منهم بطريق القمار ، فذلك كله طيب له ،وهذا كله قول أبي حنيفة ، ومحمد رضي الله عنهما ، وقال سفيان الثوري : يجوز ذلك للأسير، ولا يجوز للمستأمن .
حاشية ابن عابدين (5/ 186) ايچ ايم سعيد:
قوله ( ولا بين حربي ومسلم مستأمن ) احترز بالحربي عن المسلم الأصلي والذمي وكذا عن المسلم الحربي إذا هاجر إلينا ثم عاد إليهم فإنه ليس للمسلم أن يراني معه اتفاقا كما يذكره الشارح ووقع في البحر هنا غلط حيث قال وفي المجتبى مستأمن منا باشر مع رجل مسلما كان أو ذميا في دراهم أو من أسلم هناك شيئا من العقود التي لا تجوز فيما بيننا كالربويات وبيع الميتة
جاز عندهما خلافا لأبي يوسف ا هـ فإن مدلوله جواز الربا بين مسلم أصلي مع مثله أو مع ذمي هنا وهو غير صحيح لما علمته من مسألة المسلم الحربي والذي رأيته في المجتبى هكذا مستأمن من أهل دارنا مسلما كان أو ذميا في دارهم أو من أسلم هناك باشر معهم من العقود التي لا تجوز الخ
حاشية ابن عابدين (5/ 186) ايچ ايم سعيد:
 قلت ويدل على ذلك ما في السير الكبير وشرحه حيث قال وإذا دخل المسلم دار الحرب بأمان فلا بأس بأن يأخذ منهم أموالهم بطيب أنفسهم بأي وجه كان لأنه إنما أخذ المباح على وجه عري عن الغدر فيكون ذلك طيبا له والأسير والمستأمن سواء حتى لو باعهم درهما بدرهمين أو باعهم ميتة بدراهم أو أخذ مالا منهم بطريق القمار فذلك كله طيب له ا هـ ملخصا اھ
فانظر كيف جعل موضوع المسألة الأخذ من أموالهم برضاهم فعلم أن المراد من الربا والقمار في كلامهم ما كان على هذا الوجه وإن كان اللفظ عاما لأن الحكم بدور مع علته غالبا۔
البحر الرائق لابن نجيم(1/ 202):
وفي معراج الدراية معزيا إلى فجر ( ( ( فخر ) ) ) الأئمة لو أفتى مفت بشيء من هذه الأقوال في موضع ( ( ( مواضع ) ) ) الضرورة طلبا للتيسير كان حسنا اه۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

8/شعبان المعظم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب