021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کےبعدنکاح برقراررہےگا کہ نہیں
76225طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

محترم مفتی صاحب :

عرض یہ ہیکہ میری بیٹی ثناءمحمودجس کی شادی 17-1-2015کووقاص خواجہ نامی لڑکےسےہوئی تھی،لیکن یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی انتہائی سخت حالات میں ثناءنے2019ءکواپناگھرچھوڑدیااورمیکہ میں رہنےلگی ،اب عدالت کےذریعےہم نےخلع لی ہے۔عدالت کےتین نوٹس دینےپربھی لڑکاعدالت نہیں آیااورنہ ہی اس کےسائن ہیں خلع کےپیپرپر،اب اس سلسلےمیں آپ کی راہنمائی کی ضرورت ہےکہ عدالت کےازخودفیصلےسےخلع واقع ہوگئی ہے یانہیں۔آپ کےلئےیہ جاننابھی ضروری ہےکہ اتناانتہائی قدم کیوں اٹھایاجارہاہے،شادی کےابتدائی ایام سےہی لڑکےکا رویہ عجیب تھا،وہ نہ توبیوی کی عزت کرتااورنہ ہی دوسرےحقوق کوپوراکرتا،لڑکاحالانکہ Dentistہےمگر آدھادن سونےکےبعداپنےکام پرجاتاتھا،اس لئےکبھی اپنی بیوی کوخرچہ نہیں دیااورنہ ہی خوداسےکوئی چیزلاکردی ۔ شروع کا سال توبحثیت ماں بیٹی کوسمجھانےمیں گزراکہ تم اس کی پسندناپسندکاخیال رکھو،آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔

لیکن پھراس کےرویےکاسبب یہ پتہ چلاکہ لڑکانشےکاعادی ہے،ثناءکوجب اس کےنشےکاپتہ چلاتواس نےکافی عرصہ یہ بات اپنےمیکےنہیں بتائی ،اس دوران اللہ نےاسےبیٹاعطاءکیا،ہم سب کویہ لگاکہ اولادکےمعاملےمیں وہ ضروراپنارویہ بدل لےگا،لیکن ایساکچھ بھی نہیں ہوا،اس نےسوائےبچےکادودھ اورDiapersکےعلاوہ اورکسی چیز پرپیسےخرچ نہیں کیے۔حالات سےتنگ آکرثناءنےہمیں سب بتایا،اس کےوالدجواب اس دنیامیں نہیں ہیں ،انہوں نےوقاص کوبلایااوراس سےپوچھااورثناءکی شکایات کاذکرکیاتواس نےنہایت تابعداری اورفرماں برداری سے کہاکہ اب آپ لوگوں کوکوئی شکایت نہیں ہوگی،لیکن کچھ عرصےکےبعداس کارویہ ویساہی ہوگیا۔اس صورتحال میں جب یہ باتیں بڑھنےلگیں توثناءنےاسکاگھرچھوڑدیا،اب تین سال ہوگئےہیں وہ میکےمیں ہےاپنےبیٹےکےساتھ، وقاص نے نہ توکبھی بیٹےسےملنےکی کوشش کی اورنہ ہی اپنی بیوی سے۔

آپ کےذہن میں لازمی یہ سوال ہوگاکہ لڑکےکےگھروالوں کاکیابرتاؤتھا؟ہم نےان سےبات کیوں نہیں کی؟ لڑکےکےوالدصاحب عرصہ40سال سےسعودی عرب میں مدینہ میں مقیم ہیں اوروہاں ان کاکاروبارہے۔ اورلڑکے کی والدہ کاانتقال ہوچکاہے،اس کی شادی سےدوسال پہلےلڑکااپنی پڑھائی کےسلسلےمیں میٹرک کےبعد سےکراچی میں مقیم ہے،یہ اپنےبہن بھائیوں میں بڑاہے،اس کےدوچھوٹےبھائی اوردوبہنیں ہیں ،اس کاایک بھائی اپنی بیوی کےساتھ برطانیہ میں مقیم ہےاوردوسراآسٹریلیامیں اپنی پڑھائی کی وجہ سے۔

ایک بہن کی شادی اس کی شادی کےسال بعد ہوگئی اورصرف ایک چھوٹی بہن اس کےساتھ رہتی ہے،ان کے والد نےبیٹی کی شادی کےبعدخودبھی دوسری شادی کرلی اوروہ اب اپنی زندگی میں مگن ہیں،البتہ اولادکی مالی ضرورتوں کوپوراکرتےہیں ۔یہ رشتہ ایک جاننےوالی کےتوسط سےکیاگیاتھا،جولڑکےکی والدہ کی پڑوسن تھی انھوں نےکہاکہ وہ اچھےشریف لوگ ہیں توہم نےزیادہ معلومات نہیں لیں ۔

بہرحال لڑکےکےوالدنےاپنےبیٹےکےسلسلےمیں کسی بات کانوٹس نہیں لیا،ان کی باتوں سےہمیں یہ شک ہونے لگاکہ انہیں اپنےبیٹےکی نشےکی عادت کاپہلےسےپتہ تھااوراس کےخراب رویہ کا ،میں نےعدالتی کاروائی سےپہلے ان کےوالدکوفون پرکہاتھاکہ میں آپ سےاب بھی خاندانی پاسداری کالحاظ چاہتی ہوں، ہم عدالت سےطلاق کےپیپر بنوادیتےہیں آپ وقاص سےسائن کروادیں ،اورمہرکی رقم بھی دلوائیں ۔لیکن انہوں نےیہ کہہ کرجان چھڑالی کہ وہ میری بھی عزت نہیں کرتااورمیں اس کےکسی معاملےمیں نہیں پڑوں گا،آپ جانیں اورآپ کادامادجانے،پھرمجبورا ہمیں  خلع کےلئےنوٹس دیناپڑا،وہ ایک دفعہ بھی عدالت نہیں آیابلکہ ثناءکوکہاتم کوآناہےتوآجاؤبچےکےساتھ،میں سائن نہیں کروں گا،ابھی بھی اسےنہ کوئی احساس ہوااورنہ ہی کوئی شرمندگی بلکہ ڈھٹائی اوردھونس دھمکی ہی ہے۔ آپ کو اندازہ ہوگیاہوگاکہ لڑکےکاکردارکیساہے،اس کےساتھ رہناصر ف ذہنی اذیت ہے،میری بیٹی آدھی نفسیاتی مریض خودبن گئی تھی ۔

آپ سےراہنمائی کی درخواست ہے،ایسی صورت حال میں ہمیں کیاکرناچاہیے؟اتنےسالوں میں ہمیں اندازہ ہوگیاہےکہ ان کےخاندان میں بھی کوئی ان سےملناپسندنہیں کرتا،کیونکہ ان کوتاثریہی ہےکہ طارق صاحب( لڑکے کےوالد)وہاں رہ کرپیسےکےغرورمیں مبتلاہیں ،اوراولادکوکسی سےملناپسندنہیں ہے۔شکریہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"عدالتی  خلع" کی بنیادپرجوعمومانکاح ختم کرایاجاتاہے،جبکہ اس  میں شوہرکی رضامندی نہیں ہوتی اور عدالت میں جج یکطرفہ مقدمہ سن کےایک فریق کےحق میں فیصلہ سنادیتا ہے،یہ شرعامعتبرنہیں ہے، کیونکہ خلع کےلئےشوہرکی رضامندی  ضروری ہے،البتہ عدالت کےذریعےجونکاح ختم کرایاجاتاہےاسےفسخ نکاح قراردیا جاسکتاہےوہ بھی  تب معتبرہوگا،جب فسخ نکاح کےاسباب پائےجائیں،فسخ نکاح کےاسباب میں ضروری ہےکہ ایساسبب ہوجوشرعاوعقلا معتبرہومثلا:شوہرنامردہو،یاشوہرظلم وستم کرتاہو،یانان نفقہ نہ اداکرتاہو،توپھرقاضی یاعدالت کےذریعےفریقین کی بات سنی جائےگی ،اورگواہان کوسناجائےگا،لہذااگرلڑکی کاجدائی کامطالبہ فسخ نکاح کےاسباب یاکسی ایک سبب کی بنیادپر

ہوتوپھرقاضی /جج دونوں میاں بیوی کےدرمیان فسخ نکاح کرسکتاہے۔

لہذاصورت مسئولہ میں عدالت نےثناءمحمودکےدعوےپرخلع کی بنیادپرجدائی کا جوفیصلہ کیاہے،چونکہ شوہرنے اس پرقولاوتحریرارضامندی کااظہارنہیں کیا،اس لئےبطورخلع یہ فیصلہ معتبرنہیں  ہوگا،کیونکہ خلع تب  صحیح ہوتاہے جب شوہراس پررضامندی کا اظہارکرے ۔

البتہ مذکورہ صورت میں اگرلڑکی نےشرعی گواہوں کےذریعےعدالت کےسامنےشوہرکےنان نفقہ نہ دینےکے معاملےکوثابت کیاہواورعدالت نےاس ثبوت کےپیش نظرخلع کافیصلہ صادرکیاہوتواس خلع کو"فسخ نکاح" کی حیثیت سے معتبرماناجائےگا،لیکن اگرمدعیہ نےگواہوں سےاپنی بات ثابت نہ کی ہواورعدالت نےمحض مدعیہ کےبیان اور شوہر کےحاضرنہ ہونےکی بنیادپرفیصلہ کیاہوتواس فیصلےسےنکاح ختم نہیں ہوا،ایسی صورت میں کسی دوسری عدالت میں گواہوں سےثابت کرکےفیصلہ کروایاجائے،اوراگریہ مشکل ہوتوتین چارمتدین ومعاملہ فہم حضرات کےسامنے یہ معاملہ پیش کیاجائےجن میں ایک" مستندعالم دین" بھی ہواورانکےسامنےگواہوں کےذریعےیہ ساری بات ثابت کی جائے،پھروہ شوہرکوسمجھانےاورراہ راست پرلانےکی کوشش کریں ،اگرشوہراس پرآمادہ نہ ہوتویہ ثالث حضرات متفقہ فیصلےکےتحت نکاح کوختم قراردےکرفسخ نکاح کافیصلہ صادرکرلیں ۔

حوالہ جات
«المحيط البرهاني في الفقه النعماني» (3/ 336):
إما أن يقول اخلعي نفسك بكذا من المال سمى مالا مقدارا معلوما مثلا ألف درهم، أو يقول: اخلعي نفسك بمال ولم يسمه ولم يقدره، أو يقول: اخلعي نفسك بغير شيء،أو يقول: اخلعي نفسك ولم يزد على هذا، وأما إذا قال: اخلعي نفسك بألف درهم أو على ألف درهم، فخلعت نفسها على ذلك، ولم يقل الزوج بعد ذلك خلعت هل يتم الخلع فيه روايتان عن أصحابنا، والمختار أنه يتم بناء على أن الواحد هل يتولى طرفي الخلع؟ إذا كان البدل مقدارا معلوما، وفي رواية يتولى وهو المختار وتصير المرأة وكيلة من جانب الزوج؛ لأنه يمكنها الامتثال بما أمرت، وحقوق العقد لا ترجع إليها حتى يقال تؤدي إلى التضاد في حق الأحكام، أما إذا قال لها: اخلعي نفسك بمال، ولم يقدر المال فقالت: ‌خلعت ‌نفسي على كذا في ظاهر رواية أصحابنا رحمهم الله لا يتم الخلع ما لم يقل الزوج بعد ذلك خلعت. وروى ابن سماعة عن محمد رحمهما الله: أنه يتم وإن لم يقل الزوج بعد ذلك خلعت، وكثير من مشايخنا أخذوا برواية ابن سماعة.
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (3/ 440):
إذا قال لها اخلعي نفسك فهو على أربعة أوجه: إما أن يقول بكذا فخلعت يصح وإن لم يقل الزوج بعده: أجزت، أو قبلت على المختار؛ وإما أن يقول بمال ولم يقدره، أو بما شئت فقالت: ‌خلعت ‌نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده، وإما أن يقول اخلعي ولم يزد عليه فخلعت، فعند أبي يوسف لم يكن خلعا ۔
«الهداية في شرح بداية المبتدي» (2/ 261):
" ‌وإذا ‌تشاق ‌الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به " لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] " فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال " لقوله عليه الصلاة والسلام: " الخلع تطليقة بائنة " ولأنه يحتمل الطلاق حتى صار من الكنايات والواقع بالكنايات بائن إلا أن ذكر المال أغنى عن النية هنا ولأنها لا تسلم المال إلا لتسلم لها نفسها وذلك بالبينونة " وإن كان النشوز من قبله يكره له أن يأخذ منها عوضا " لقوله تعالى: {وإن أردتم استبدال زوج مكان زوج} إلى أن قال {فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء: من الآية20] ولأنه أوحشها بالاستبدال فلا يزيد في وحشتها بأخذ المال " وإن كان النشوز منها كرهنا له أن يأخذ منها أكثر مما أعطاها ".
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (1/ 522):
‌إذا ‌رفعت ‌المرأة ‌زوجها ‌إلى ‌القاضي ‌وادعت ‌أنه ‌عنين وطلبت الفرقة فإن القاضي يسأله هل وصل إليها أو لم يصل فإن أقر أنه لم يصل أجله سنة سواء كانت المرأة بكرا أم ثيبا، وإن أنكر وادعى الوصول إليها فإن كانت المرأة ثيبا فالقول قوله مع يمينه أنه وصل إليها كذا في البدائع
«تحفة الفقهاء» (2/ 226):
فإذا حال الحول فرفعت الأمر إلى القاضي وادعت أنه لم يصل إليها فإنه يسأل الزوج عن ذلك فإن قال قد وطئتها وهي ثيب فالقول قوله
الحیلۃ الناجزۃ (ص133)
وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير ما نصه إن منعها نفقة الحال فلها القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه ،قال محشيه أي طلق عليه الحاكم
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (2/ 332):
ومنها وجوب النفقة، والسكنى لقوله تعالى {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف} [البقرة: 233] ، وقوله تعالى {لينفق ذو سعة من سعته ومن قدر عليه رزقه فلينفق مما آتاه الله} [الطلاق: 7] ، وقوله {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} [الطلاق: 6] ، والأمر بالإسكان أمر بالإنفاق؛ لأنها لا تمكن من الخروج للكسب لكونها عاجزة بأصل الخلقة لضعف بنيتها والكلام في سبب وجوب هذه النفقة، وشرط وجوبها، ومقدار الواجب منها نذكره إن شاء الله تعالى في كتاب النفقة.
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (2/ 334):
ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي» ، وقيل المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في، قوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله عز وجل أعلم.

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۹رجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب