021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"پراویڈنٹ فنڈ”وراثت میں تقسیم ہوگا
76288ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

تین سال پہلےمیرےشوہرنےبیماری کی حالت میں مجھےطلاق دےدی تھی،جس کی گواہ میری بیٹی ہے،اس سےپہلے بھی اکثرجھگڑوں میں طلاق طلاق کرتےرہتےتھےاورطلاق دےکرانکارکردیتےتھےکہ میں نےنہیں دی۔اس لئےمیرےبھائیوں نےعدالت سےخلع لےلی ۔

دوسال پہلےان کاانتقال ہوگیاہے،جہاں وہ ملازمت کرتےتھےوہاں سے ان کی کچھ رقم ملی ہے،(جوکہ  پراویڈنٹ فنڈہے)  میری ایک ہی بیٹی ہے،مجھےمعلوم یہ کرناتھاکہ شرعی طورپریہ رقم صرف میری بیٹی کوملےگی یااس کاکوئی اوربھی حصہ دار ہوگا،جیساکہ میرےپانچ دیوراورچھ نندیں ہیں ،قانونی طورپرتویہ رقم سب میں تقسیم ہوگی، لیکن میں چاہتی ہوں کہ یہ رقم میری بیٹی کوملےکیونکہ اس کےددیال کی طرف سےکوئی سپورٹ نہیں ہے،میں اکیلے ہی بیٹی کی ساری تعلیم کاخرچہ اٹھارہی ہوں اورآگےشادی بھی میں نےہی کرنی ہے،جس سےمیں بہت پریشان ہوں ، جبکہ میں خود امی کےگھرمیں رہتی ہوں ۔

اس سلسلےمیں ہم نےایک وکیل سے بات کی تھی انہوں نےکہا کہ اگرشرعی طورپرکوئی مفتی فتوی دےکہ باب کے پیسےپرصرف بیٹی کاحق ہےتورقم صرف بیٹی کوملےگی ۔ میری گزارش ہےآپ سےکہ برائےمہربانی اس مسئلےکاحل نکالئیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

" پراویڈنٹ فنڈ" جو ادارےکی طرف سےحاصل ہوتاہے، اس میں تین قسم کی رقمیں شامل ہوتی ہیں ، (1)اصل رقم جوتنخواہ سےکاٹی گئی (2)محکمہ کی طرف سےتبرع کی ہوئی رقم (3)سودکی رقم ۔

پہلی دورقمیں توملازم یااس کےورثاءکےلیےلیناجائزہے البتہ اگرتیسری رقم سودکی ہے(مثلابینک میں رکھواکراس پرسودلیا یا"ڈیفنس سرٹیفکیٹ"خریدکریاعام ڈپازٹ سرٹیفکیٹ لےکر اس پرسودلیا)وہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی حاصل کرلےتوواپس کرناہوگااگرواپس کرناممکن نہ رہےتوپھر ثواب کی نیت کیےبغیر صدقہ کردینا چاہیے۔  اور اگرسودکی رقم نہیں ہےبلکہ جائز طریقےسےنفع حاصل ہواہےتواسےلیناجائزہے۔ ملازم کی وفات کےبعد" پراویڈنٹ فنڈ"کسی ایک وارث کونہیں دیاجاسکتابلکہ پراویڈنٹ فنڈسمیت مرحوم کےکل ترکہ میں تمام ورثاءاپنےاپنےحصےکےبقدرشریک ہوں گے۔

حوالہ جات
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (7/ 57):
لأن ‌الإرث ‌إنما ‌يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل
«تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي» (6/ 229):
والمراد من ‌التركة ‌ما ‌تركه ‌الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۳شعبان  ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب