021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے قاری صاحب کا بچوں سے اضافی پیسے لینا
76257وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک قاری صاحب  کا تقرر مسجد میں ہوا ہے ،وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں،مسجد کی انتظامیہ ان کو ہر ماہ وظیفہ دیتی ہے اس کے باوجود وہ الگ سے پیسے لیتے ہیں تو آیا قاری صاحب کا بچوں سے پیسا لینا جائز ہے یا نہیں؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں!

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے قاری صاحب کی تنخواہ اس حد تک مقرر کردی گئی ہے جس سے اس کی روز مرہ کی ضروریات پوری ہورہی ہوں، اور اس کے ساتھ انتظامیہ بچوں سے اضافی پیسے لینے سے منع بھی کررہی ہو، تو اس صورت میں قاری صاحب کا بچوں سے اضافی پیسے لینا درست نہیں ہے۔ اور اگر انتظامیہ کی طرف سے قاری صاحب کی مقرر کردہ تنخواہ کم ہے، اس صورت میں اگر قاری صاحب انتظامیہ سے ایک الگ مفاہمت کے تحت بچوں سے پیسے لیتا ہے تو یہ پیسے لینا اس کیلئے جائز ہوگا، اس میں کسی قسم  کی قباحت نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ(22/221)
الرشوۃ فی الحکم، ورشوۃ المسئول عن عمل حرام بلا خلاف، وھی من الکبائر۔
قال اللہ تعالی: {سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ} [المائدة: 42] قال الحسن وسعید بن جبیر: ھو الرشوۃ۔
وقال تعالی: { وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [البقرة: 188]
وروی عبد اللہ بن عمرو قال: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی وفی روایۃ زیادۃ"والرائش"۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 22)
قال - رحمه الله - (والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان وكان محمد بن الفضل يفتي بأن الأجرة تجب ويحبس عليها وفي الخلاصة إذا أخذ المعلم من الصبي شيئا من المأكول أو دفع الصبي ذلك إلى ولد المعلم لا يحل له بخلاف ثمن الحصر؛ لأن ذلك تمليك من أب الصغير.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 428)
(قوله ومن علم الأطفال إلخ) الذي في القنية: أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق، ولم ينقل عن أحد القول به، ويمكن أنه بناء على أنه بالإصرار عليه يفسق. أفاده الشارح.
قلت: بل في التتارخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد، فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ لكن استدل في القنية بقوله - عليه الصلاة والسلام - «جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم»

محمدنصیر

  دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

09،شعبان المعظم،1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نصیر ولد عبد الرؤوف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب