021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مطلوبہ شے(مصنوع)طےشدہ معیاراورمواصفات کےمطابق نہ ہونےکاحکم
76418خرید و فروخت کے احکامسلم اور آرڈر پر بنوانے کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ میں جنوری 2019میں چائنہ گیاتھاوہاں ایک دکان سے (آرٹیفیشل زیورکا) آرڈر بک کروایا،پاکستانی کرنسی کےحساب سے1188657روپےبنتےہیں، جس میں سےمیں نےان کو 1026800روپےنقداداکیےاورباقی161857روپےبعدمیں اداکرنےکاکہا۔یہ معاملہ طےہونےکےبعد اس نے مجھے ڈیلوری ڈیٹ لکھ کر دی  اورکہاکہ  30مارچ 2019کو آپ کو ڈیلوری دے دونگالیکن اس نے مال پانچ سے چھ مہینے تاخیر سے ڈیلورکیا۔ہماراآرڈر بک کرنے کا مقصد یہ تھا کہ  مارچ، اپریل تک مال آجائے گاتو شعبان ،رمضان کا ہمارا سیزن ہوتا ہے تو اسمیں وہ مال کیش ہوجائے گا،رمضان کے سیزن کے بعد بقرہ عید پر شادیوں کا سیزن آتا ہےاس نے وہ بھی گزار کر محرم کے بعد مال بھیجا۔یہ واضح رہے کہ ہم آرڈرکینسل بھی نہیں کرواسکتے تھے(یعنی واپس نہیں کرسکتےتھے) کیونکہ اکثر  ادائیگی کیش میں ہوچکی تھی اور وہاں کی ایک عام دکان سے کیش پر مال بک کروایا تھا ،بینک یا کوئی اور کمپنی درمیان میں شامل نہیں تھی۔

اس کی تاخیر کرنے سے میرا یہ نقصان تو ہوا کہ میرے پیسے لمبے عرصے کے لیے پھنس گئے اوردوسرا یہ کہ مال بھی جو طےہوا تھا اس معیار سے کافی کم درجے کا نکلا،جس کی وجہ سے وہ مال دوسال  کی مدت میں بھی فروخت نہ ہوسکا۔

 اس نقصان  کی تلافی میں اس کی کچھ رقم جوبعدمیں دینی تھی 9500آرا یم بی  جوکہ پاکستانی 161857 روپے بنتے ہیں میرےلیے کاٹنا جائز ہے؟کیونکہ اس کے علاوہ نقصان کی تلافی کی کوئی اورصورت نہیں،جب کہ مال  کی تاخیراور غیر معیاری ہونے   کی وجہ سےمیرانقصان کافی زیادہ ہوا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں جومعاملہ ہوا،وہ عقداستصناعManufacturing Contract کاتھا،اس عقد میں اگرمطلوبہ مصنوع طےشدہ معیاراورمواصفات کےمطابق نہ ہوتوخریدار کوایسےمیں "خیاروصف" کی بنیادپر اختیار ہوگاکہ اگروہ چاہےتو مصنوع لےیاواپس کردے،البتہ اگرکسی عذرشرعی کی وجہ سےمطلوبہ چیز ردکرنامتعذر ہوجائے توپھر نقصان کےبقدررجوع کیاجاسکتاہے۔

رہایہ کہ بروقت مبیع مصنوع کی حوالگی نہ ہونے پرقیمت سےکٹوتی کرناتواس حوالےسے"اگرآپ اوربائع (صانع) نے باہمی رضامندی سےعقدکےدوران بروقت مبیع (مصنوع) کی حوالگی نہ ہونے پر مصنوع کی قیمت میں کمی کرنےکی شرط لگائی تھی" تواس شرط(شرط جزائی(کےحساب سےقیمت میں کمی کرنےکی گنجائش ہے، بشرطیکہ تاخیر کسی ناگہانی صورت  میں نہ ہواورقیمت سےکٹوتی ظالمانہ  نہ ہو ۔

صورت مسئولہ میں مطلوبہ شے(آرٹیفیشل زیور)چونکہ طےشدہ معیاراورمواصفات کےمطابق ڈیلورنہیں ہوئی ، اور ردکرنابھی ممکن نہیں ہے،اس لیےآپ کونقصان کےبقدررجوع کرنےکاحق حاصل ہے۔نقصان کے بقدر رجوع اس طرح ہوگا کہ جس کوالٹی کامال آپ نےآڈرکرایاتھاوہ اورموصول ہونے والےغیرمعیاری اورہلکے مال کی قیمت لگوائی جائے، دونوں قیمتوں کےدرمیان جوفرق ہوگا ،وہ نقصان شمار ہوگااوراس نقصان کےبقدرآپ رجوع کرسکتے ہیں

لہذا قیمت میں سے بچی ہوئی رقم( 9500آرا یم بی  جوکہ پاکستانی 161857 روپے بنتے ہیں)جوآپ نےاداکرنی ہے،اگرنقصان کےبرابرسرابر ہوجائےتوپھرآپ وہ رقم پوری  ضبط کرسکتےہیں لیکن اگرنقصان زیادہ ہوااوررقم کم ہے توپھر آپ مزیدرقم کامطالبہ بھی کرسکتے ہیں اوراگرآپ کےپاس رقم نقصان کی مقدارسےزیادہےتوجتنااضافی رقم بن رہی ہے اسے اداکرنا ہوگا۔

حوالہ جات
«مجلة الأحكام العدلية» (ص76):
(المادة 389) : كل شيء تعومل استصناعه يصح فيه الاستصناع على الإطلاق وأما ما لم يتعامل باستصناعه إذا بين فيه المدة صار سلما وتعتبر فيه حينئذ شروط السلم وإذا لم يبين فيه المدة كان من قبيل الاستصناع أيضا.
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (5/ 3):
كذا قال أبو يوسف فأما إذا أحضر الصانع العين على الصفة المشروطة؛ فقد سقط خيار الصانع، وللمستصنع الخيار؛ لأن  الصانع بائع ما لم يره؛ فلا خيار له.
فقہ البیوع المجلدالاول ، الصفحۃ ۵۸۵
اخذ مدونو" مجلۃ الاحکام العدلیۃ" بقول اللزوم حسب ماجاءفی تنویرالابصاروغیرہ ،وبقول ابی یوسف رح فی  ان المستصنع لاخیارلہ بالرویۃ ،فقالوفی مقدمتھا:
"وعندالامام الاعظم ان المستصنع لہ الرجوع بعدعقدالاستصناع ،وعندالامام ابی یوسف رحمہ اللہ انہ اذاوجدالمصنوع موافقاللصفات التی بینت وقت العقد،فلیس لہ الرجوع ، والحال انی فی ھذاالزمان قداتخذت معامل کثیرۃ تصنع فیھاالمدافع والبواخرونحوھابالمقاولۃ ، وبذالک صار الاستصناع من الامورالجاریۃ العظیمۃ۔فتخییرالمستصنع فی امضاءالعقداوفسخہ یترتب علیہ الاخلال بمصالح جسیمۃ،وحیث ان الاستصناع مستندالی التعارف،ومقیس علی السلم الشرعی علی خلاف القیاس بناءعلی عرف الناس،لزم اختیارقول ابی یوسف رحمہ اللہ تعالی فی
ھذامراعاۃ لمصلحۃ الوقت۔وعلی ھذاالاساس نصت المادۃ ۳۹۲من المجلۃ مایاتی :
 (المادة 392) وإذا انعقد الاستصناع ; فليس لأحد العاقدين الرجوع وإذا لم يكن المصنوع على الأوصاف المطلوبة المبينة كان المستصنع مخيرا.
فقہ البیوع المجلدالثانی (ص1179):
امااذاکان البیع بین بلدین عن طریق الشحن البری اوالبحری اوالجوی ،فخیارالمشتری مشروط بان یجدالمبیع مخالفالتلک المواصفات،ولاخیارلہ ان وجدھامطابقۃ لھا۔
المعیارالشرعی رقم ۱۱"الاستصناع والاستصناع الموازی "(ص۳۰۴)البند۶/۲/۱:
إذا كان المصنوع وقت التسليم غير مطابق للمواصفات /٢/٦فإنه يحق للمستصنع أن يرفضه، أو أن يقبله بحاله، فيكون من قبيل حسن الاقتضاء. ويجوز للطرفين أن يتصالحا على القبول ولو مع الحط من الثمن.
6/7يجوز أن يتضمن عقد الاستصناع شرطاجزائیاغیرمجحف لتعویض المستصنع عن تأخير التسليم بمبلغ يتفق عليه الطرفان إذا لم يكن التأخير نتيجة لظروف قاهرة أو طارئة، ولالا يجوز الشرط الجزائي بالنسبة للمستصنع إذا تأخر في أداء الثمن (ينظر المعيار.(٢/١/ رقم ( ٣البند ٢
«المبسوط للسرخسي» (23/ 63):
وفي قول أبي يوسف ومحمد - رحمهما الله - الشرطان جائزان۔۔۔۔۔۔۔۔إذا ‌دفع ‌ثوبا إلى خياط، فقال: إن خطته اليوم فلك درهم، وإن خطته غدا فلك نصف درهم
«درر الحكام في شرح مجلة الأحكام» (1/ 425):
وإذا كان المصنوع غير موافق للأوصاف المطلوبة فإن كان النقص الموجود فيه من قبيل العيب فللمستصنع خيار العيب وإن كان من قبيل الوصف؛ فله خيار الوصف إن شاء قبله وإن شاء رده.
«درر الحكام في شرح مجلة الأحكام» (1/ 305):
(6) إن فقدان الوصف يثبت للمشتري الخيار في الرد أو القبول فقط ولا يثبت الحق في قبول المبيع مع حط من الثمن ما لم يتعذر رد المبيع بعذر مشروع فحينئذ يثبت له ذلك الحق.إذا اختلف في شرط اتصاف المبيع بوصف مرغوب أحصل أو لم يحصل فالقول للبائع والبينة على المشتري
«الهداية في شرح بداية المبتدي» (3/ 36):
قال: "وكل ما أوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب"؛ لأن التضرر بنقصان المالية، وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله
«مجلة الأحكام العدلية» (ص68):
(المادة 346) : نقصان الثمن يصير معلوما بإخبار أهل الخبرة الخالين عن الغرض وذلك بأن يقوم ذلك الثوب سالما ثم يقوم معيبا فما كان بين القيمتين من التفاوت ينسب إلى الثمن المسمى وعلى مقتضى تلك النسبة ‌يرجع ‌المشتري ‌على ‌البائع ‌بالنقصان

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۹شعبان  ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب