021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
موسیقی اور گانے سے متعلق روایات کی تحقیق
76395حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

علامہ ابن حزمؒ کہتے ہیں کہ ”گانے کی حرمت کے بارے میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں ہے، سب موضوعات ہیں۔“ امام شوکانیؒ کے مطابق ”غنا اور موسیقی کی حرمت کے بارے میں مروی تمام روایات کو نہ ائمہ اربعہؒ نے حجت مانا ہے، نہ داؤد ظاہریؒ نے اور نہ ہی سفیان ثوریؒ نے حالانکہ یہ سب سرخیل مجتہدین ہیں۔“، ابوبکر ابن عربیؒ نے اپنی کتاب ”احکام الحدیث“ میں ان تمام روایات کو ضعیف قرار دیا ہے، ابن طاہرؒ کے مطابق ”ان روایات کا ایک حرف بھی صحیح نہیں روایات تو بعد کی بات ہے۔“ سید جمال الدین محدث حنفیؒ، علامہ فخرالدین رازی شافعی اور علامہ غلام مصطفی حنفیؒ وغیرہم نے تو ”غنا اور موسیقی“ کے جواز پر مستقل کتابچے اور رسالے لکھ ڈالے ہیں، سید جمال الدین حنفیؒ کے مطابق یہ بات کہ ”گانا بجانا حرام ہے، بیٹھنا فسق ہے اور لذت لینا کفر ہے“یہ سرا سر بے بنیاد اور من گھڑت روایت ہے، امام نوویؒ کے مطابق ”گانے کی حرمت پر کوئی بھی حدیث درست نہیں۔“، امام سخاویؒ نے ”مقاصد حسنہ“ میں زبان زد عام ایسی تمام احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ان روایات کی کوئی اصلیت (بنیاد) نہیں“  حافظ الحدیث علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ ”گانے کی حرام ہونے کے بارے میں روایات صحیح، حسن تو کیا ضعیف درجے میں بھی نہیں جن سے حرمت کےلیے استدلال کیا جاسکے، ایسی احادیث کو ائمہ اربعہؒ نے قبول نہیں کیا ہے۔“ علامہ ابوبکر ابن العربیؒ کے نزدیک ”تحریم غنا کی ایک روایت بھی درست نہیں سب موضوع اور من گھڑت ہیں، بعض شافعیہ کے نزدیک حرمت غنا کی حدیثیں منکرین ہی کی کتابوں میں ملتی ہیں بس۔“

غنا اور موسیقی کی حرمت پر مفتی محمد شفیعؒ نے بھی  اپنی کتاب میں یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ روایتیں سب ضعیف ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. سوال کے جواب سے پہلے بطور تمہید یہ جاننا ضروری ہے کہ شریعت میں غناء یعنی گانے اور موسیقی دونوں کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے،  جس کی تفصیل یہ  ہے:
  2. نمبر1:میوزک اورموسیقی کا حکم:
  3. میوزک اور موسیقی ناجائز اور حرام ہے اور یہ بات قرآن و حدیث کی نصوصِ صحیحہ اور حضرات آئمہ کرام رحمہم اللہ کے اجماع  سے ثابت ہے، جس سے موسیقی کی حرمت اور ممانعت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، چنانچہ موسیقی کی حرمت کے بارے میں چند  ایک دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
  4. صحیح بخار شریف (106/7) کی روایت میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
  5. ’’لیکونن من امتی أقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف‘‘
  6. یعنی میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ، ریشم، شراب اور راگ باجوں کو حلال قرار دیں گے۔
  7. یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح  اور قابلِ استدلال ہے، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب میں اصالتاً روایت کیا ہے۔
  8. ایک روایت کو امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی "مسند" میں اور امام منذری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الترغيب والترہيب" میں نقل کیا ہے:

مسند البزار (14/ 62، رقم الحدیث: 7513) مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة:

حدثنا عمرو بن علي، حدثنا أبو عاصم، حدثنا شبيب بن بشر البجلي، قال: سمعت أنس بن مالك يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة: مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة.

  1. ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو آوازیں دنیا اور آخرت میں ملعون ہیں: خوشی اور نعمت کے وقت بانسری کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز۔
  2. امام منذری رحمہ اللہ نے اس کے تمام رواة کو ثقہ قرار دیا ہے، نیز اس روایت میں انقطاع بھی نہیں، کیونکہ اس ميں صیغہٴ "عن" کی بجائے تمام صیغے تحدیث کے استعمال کیے گئے ہیں، جو کہ راوی کے مروی عنہ سے سماع پر دلالت کرتے ہیں، لہذا یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے  صحیح اور قابلَ استدلال ہے۔

الترغيب والترهيب للمنذري (4/ 184) دار الكتب العلمية، بيروت:

وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة. رواه البزار ورواته ثقات.

  1. ایک روایت کو امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، جس میں موسیقی کی حرمت کو بیان کرنے کے لیے  لفظ "کوبة" مذکور ہے، جس کا معنی امام ابوداوداورعلامہ عینی رحمہما اللہ نےباجا بجانے کا نقل کیا ہے، نیز لغت میں اس کا معنی موسیقی کا آلہ(آلة موسيقية تشْبِه العود كذا في معجم المعاني ) ذکر کیا گیا ہے:

سنن أبي داود (3/331) المكتبة العصرية، صيدا – بيروت:

عن ابن عباس، أن وفد عبد القيس، قالوا: يا رسول الله فيم نشرب؟ قال: «لا تشربوا في الدباء، ولا في المزفت، ولا في النقير، وانتبذوا في الأسقية» قالوا: يا رسول الله، فإن اشتد في الأسقية؟ قال: «فصبوا عليه الماء» قالوا: يا رسول الله، فقال لهم في الثالثة أو الرابعة «أهريقوه» ثم قال: «إن الله حرم علي، أو حرم الخمر، والميسر، والكوبة» قال: «وكل مسكر حرام» قال سفيان: فسألت علي بن بذيمة عن الكوبة، قال: «الطبل»

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار (16/ 116) وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية – قطر:

الثالثة أو الرابعة: أهريقوه. ثم قال: إن الله حرَّم عليَّ -أو حرَّم- الخمر والميسر والكوبة، وقال: كل مسكر حرام. قال سفيان: فسألت علي بن بذيمة عن الكوبة فقال: الطبل.

 اس روایت کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اپنی مسند میں نقل کیا ہے اور علامہ شعیب ارنؤوط اور شیخ احمد شاکر نے اس کے رواة کی جانچ پڑتال اور دراسہٴ سند کے بعد اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔

   مسند أحمد (3/ 125، رقم الحديث: 2476 ) دار الحديث، القاهرة:

قال الشيخ أحمد شاكر في تعليقاته: إسناده صحيح، علي بن بذيمة، فتح الباء وكسر الذال المعجمة الحِزري: ثقة، وثقه ابن معين وأبو زرعة والنسائي وغيرهم۔

مسند أحمد (4/ 280، رقم الحديث: 2476) مؤسسة الرسالة، بيروت:

قال شعيب الأرنؤوط في تعليقاته: إسناده صحيح، علي بن بذيمة ثقة روى له أصحاب السنن، وقيس بن حبتر روى له أبو داود، وهو ثقة، وباقي رجال السند ثقات رجال الشيخين.

اسی طرح  ابن ماجہ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

سنن ابن ماجه ت: الأرنؤوط (5/ 151) دار الرسالة العالمية،بيروت:

’’لیشربن الناس من أمتی الخمر یسمونھا بغیر اسمھا یعزف علی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللّٰہ بھم الارض ويجعل منهم القردة والخنازير الخ.

یعنی میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے، مگر اس کا نام بدل کر، ان کی مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہوں گی۔ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔

 امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کے علاوہ امام ابن حبان، علامہ بیہقی اور دیگر محدثین نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے، البتہ اس میں ایک راوی مالک بن ابی مریم کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لا یعرف کہا، جبکہ امام ابن حبان نے اس کو اپنی کتاب" الثقات" میں نقل کیا اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو مقبول قرار دیا، لہذا امام ابن حبان اور حافظ ابن حجررحمہما اللہ کے اقوال کے مطابق یہ روایت  بھی مقبول ہے۔

نیزاگر بالفرض حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق اس روایت کو ضعیف بھی کہا جائے[1] تو بھی دو وجہ سے یہ روایت معنى كے اعتبار سے مقبول شمار ہو گی:

اول: علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبری میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس روایت کے کافی شواہد موجود ہیں اور علامہ شعیب الأرنؤوط نے ان شواہد پر صحت کا حکم لگایا ہے، لہذا یہ روایت اپنے شواہد کی وجہ سے معنیً صحیح اور مقبول ہے۔[2]

دوم: اس روایت کا تعلق وعید کے باب سے ہے اور وعید کے باب میں ضعیف روایت بھی معتبر اور مقبول ہوتی ہے، بشرطیکہ اس میں ضعفِ شدید نہ ہو، جبکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق بھی اس میں ضعفِ شدید نہیں، کیونکہ  راوی کے بارے میں"لا یعرف" کہنا سب سے کمزور درجے کی جرح ہے۔

اس کے علاوہ مختلف الفاظ سے منقول اور بھی بہت سی روایات میں موسیقی اور باجوں کی حرمت کا ذکر موجود ہے، اگرچہ ان میں سےبعض میں ضعف بھی ہے، لیکن  جب کسی مسئلہ میں صحیح احادیث موجود ہوں تو پھر ضعیف روایات سے مسئلہ کی کیفیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ اگر صحیح کے ساتھ ضعیف احادیث کے طرق بھی کثرت سے موجود ہوں تو ان سے صحیح احادیث کو مزید تقویت مل جاتی ہے۔

موسیقی کی حرمت کے بارے میں بھی روایات بکثرت منقول ہیں، شاید اسی وجہ سے اس  کی حرمت پر امت کے فقہائے کرام  رحمہم اللہ کا اتفاق اور اجماع ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم رحمہم اللہ نقل کرتے ہیں:

البحر الرائق منحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 88) دار الكتاب الإسلامي:

ونقل البزازي في المناقب الإجماع على حرمة الغناء إذا كان على آلة كالعود، وأما إذا كان بغيرها فقد علمت الاختلاف ولم يصرح الشارحون بالمذهب وفي البناية والعناية التغني للهو معصية في جميع الأديان۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 319) دار الكتب العلمية بيروت، لبنان:

وأما الرقص والتصفيق والصريخ وضرب الأوتار والصنج والبوق الذي يفعله بعض من يدعي التصوف فإنه حرام بالإجماع لأنهازي الكفار كما في سكب الأنهر۔

فتح المغيث بشرح ألفية الحديث (1/ 350) مكتبة السنة، مصر:

إذا تلقت الأمة الضعيف بالقبول يعمل به على الصحيح، حتى إنه ينزل منزلة المتواتر في أنه ينسخ المقطوع به ولهذا قال الشافعي - رحمه الله - في حديث: «لا وصية لوارث» : إنه لا يثبته أهل الحديث، ولكن العامة تلقته بالقبول، وعملوا به حتى جعلوه ناسخا لآية الوصية له.

نمبر2: گانا گانے کا حکم:

گزشتہ صفحات میں جو حکم مذکور ہوا وہ میوزک، موسیقی اور ڈھول وغیرہ بجانے سے متعلق تھا، جہاں تک گانا گانے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایات میں حرمتِ غناء کی تصریح ہے، چنانچہ قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ"ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین (لقمان: ۶)" کے تحت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ اس آیت میں ’’لھو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا ہے، اسی طرح حضرت ابن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنہما، حضرت عکرمہ ، سعید بن جبیر، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب اور علی بن جذیمہ رحمہم اللہ تعالیٰ سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے،  نیزحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول تفسیری روایت پر امام حاکم رحمہ اللہ حکم لگاتے ہوئے فرمایا " هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه" ان کے بعد جرح وتعدیل کے مشہور امام  اور ناقد حافظ ذہبی رحمہ  اللہ نے بھی  اپنی تعلیقات میں اس روایت پر صحیح کا حکم  لگایا۔

واضح رہے کہ  یہ تفسیری اقوال دیگر مفسرین جیسے  امام فخرالدین رازی، امام ابن کثیر اور علامہ آلوسی رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی اپنی تفاسیر میں نقل کیے ہیں۔ یہ حضرت ابن مسعود، ابن عباس اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم وغیرہ کا موقف ہے، لیکن جمہور صحابہ کرام وتابعین اور عام مفسرین کے نزدیک یہ آیت تمام ان چیزوں کے لیے ہے جو انسان کو اللہ کی عبادت اور یاد سے غافل کرنے والے ہوں اس میں گانا وغیرہ بھی داخل ہے، جیسا کہ آیت  کےعموم کا تقاضا ہے۔

اسی طرح سننِ ابو داود كی روایت میں ہے کہ گانا دل میں نفاق کو پیدا کرتا ہے، البتہ اس روایت کی سند میں ایک مبہم راوی موجود ہے، جس کا نام ذکر کیا گیا، بلکہ لفظِ شیخ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے۔، اس لیے یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی  بہت سی روایات ہیں جن سے گانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔

تفسير البغوي (6/ 284) الحسين بن مسعود البغوي (المتوفى: 510ھ) دار إحياء التراث العربي ،بيروت :

ووجه الكلام على هذا التأويل: من يشتري [ذات لهو أو] ذا لهو الحديث. أخبرنا أبو سعيد الشريحي، أخبرنا أبو إسحاق الثعلبي، أخبرنا أبو طاهر محمد بن الفضل بن محمد بن إسحاق المزكي، حدثنا جدي محمد بن إسحاق بن خزيمة، أخبرنا علي بن حجر، أخبرنا مشعل بن ملحان الطائي، عن مطرح بن يزيد، عن عبد الله بن زحر، عن علي بن يزيد، عن القاسم بن عبد العزيز، عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يحل تعليم المغنيات ولا يبعهن وأثمانهن حرام"، وفي مثل هذا أنزلت هذه الآية: "ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله"، وما من رجل يرفع صوته بالغناء إلا بعث الله عليه شيطانين: أحدهما على هذا المنكب، والآخر على هذا المنكب، فلا يزالان يضربانه بأرجلهما حتى يكون هو الذي يسكت.

أخبرنا عبد الرحمن بن أحمد القفال، أخبرنا أبو منصور أحمد بن الفضل البروجردي، أخبرنا أبو أحمد بكر بن محمد بن حمدان الصيرفي، أخبرنا محمد بن غالب بن تمام، أخبرنا خالد بن أبي يزيد، عن هشام هو ابن حسان، عن محمد هو ابن سيرين، عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن ثمن الكلب وكسب الزمارة"  . قال مكحول: من اشترى جارية ضرابة ليمسكها لغنائها وضربها مقيما عليه حتى يموت لم أصل عليه، إن الله يقول: "ومن الناس من يشتري لهو الحديث" الآية 

. وعن عبد الله بن مسعود، وابن عباس، والحسن، وعكرمة، وسعيد بن جبير قالوا: "لهو الحديث" هو الغناء، والآية نزلت فيه. ومعنى قوله: {يشتري لهو الحديث} أي: يستبدل ويختار الغناء والمزامير والمعازف على القرآن، قال أبو الصباء البكري سألت ابن مسعود عن هذه الآية فقال: هو الغناء، والله الذي لا إله إلا هو، يرددها ثلاث مرات.

تفسير القرآن العظيم لإسماعيل بن عمر بن كثير القرشي (المتوفى: 774هـ) (6/ 295) ط: دار الكتب العلمية،بيروت:

روى ابن جرير  : حدثني يونس بن عبد الأعلى قال: أخبرنا ابن وهب، أخبرني يزيد بن يونس عن أبي صخر عن أبي معاوية البجلي عن سعيد بن جبير عن أبي الصهباء البكري أنه سمع عبد الله بن مسعود وهو يسأل عن هذه الآية ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله فقال عبد الله بن مسعود: الغناء والله الذي لا إله إلا هو، يرددها ثلاث مرات، حدثنا عمرو بن علي، حدثنا صفوان بن عيسى، أخبرنا حميد الخراط عن عمار عن سعيد بن جبير، عن أبي الصهباء أنه سأل ابن مسعود عن قول الله ومن الناس من يشتري لهو الحديث قال: الغناء  ، وكذا قال ابن عباس وجابر وعكرمة وسعيد بن جبير ومجاهد ومكحول وعمرو بن شعيب وعلي بن بذيمة.

المستدرك على الصحيحين للحاكم (2/ 445، رقم الحدیث:3542) دار الكتب العلمية ،بيروت:

حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا بكار بن قتيبة القاضي، ثنا صفوان بن عيسى القاضي، ثنا حميد الخراط، عن عمار الدهني، عن سعيد بن جبير، عن أبي الصهباء، عن ابن مسعود رضي الله عنه، قال: {ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله} [لقمان: 6] قال: «هو والله الغناء» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه"

[التعليق - من تلخيص الذهبي] 3542 – صحيح.

سنن أبي داود ت الأرنؤوط (7/ 287، رقم الحدیث: 4927 ) دار الرسالة العالمية:

حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: حدثنا سلام بن مسكين، عن شيخ شهد أبا وائل في وليمة، فجعلوا يغنون، فحل أبو وائل حبوته، وقال: سمعت عبد الله يقول: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم - يقول: "إن الغناء ينبت النفاق في القلب"[3]

گانے کے جواز کی روایات:

ديگربعض روایات میں غناء یعنی گانے کا جواز معلوم ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان کے پاس دو بچیاں جنگِ بعاث کا تذکرہ کرکے گیت گا رہی تھی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت پاس موجود تھے، اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان بچیوں کو کچھ نہ کہو۔

 اسی طرح ایک مرتبہ انصار کی کچھ بچیاں دف بجا رہی تھیں اور ساتھ گانا گا رہی تھیں،  وہ اشعار کی صورت میں یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ ہم میں ایسے نبی موجود ہیں جو آنے والے زمانے کی باتوں کو جانتے ہیں، اسی دوران حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر ان کو ایسا کہنے سے روکا، مگر گانا گانے سے منع نہیں فرمایا:

صحيح البخاري (2/ 16، رقم الحديث: 949) دار طوق النجاة:

حدثنا أحمد بن عيسى، قال: حدثنا ابن وهب، قال: أخبرنا عمرو، أن محمد بن عبد الرحمن الأسدي، حدثه عن عروة، عن عائشة، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث، فاضطجع على الفراش، وحول وجهه، ودخل أبو بكر، فانتهرني وقال: مزمارة الشيطان عند النبي صلى الله عليه وسلم، فأقبل عليه رسول الله عليه السلام فقال: «دعهما»، فلما غفل غمزتهما فخرجتا۔

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (3/ 91،رقم الحديث: 1897) دار الرسالة العالمية،بيروت:

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا حماد بن سلمة، عن أبي الحسين - اسمه المدني - قال: كنا بالمدينة يوم عاشوراء، والجواري يضربن بالدف ويتغنين، فدخلنا على الربيع بنت معوذ، فذكرنا ذلك لها فقالت: دخل علي رسول الله

 

- صلى الله عليه وسلم - صبيحة عرسي، وعندي جاريتان يتغنيان وتندبان آبائي الذين قتلوا يوم بدر، وتقولان فيما تقولان: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال: "أما هذا فلا تقولوه، ما يعلم ما في غد إلا الله"[4].

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (3/ 93) دار الرسالة العالمية،بيروت:

عن ابن عباس، قال: أنكحت عائشة ذات قرابة لها من الأنصار، فجاء رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: "أهديتم الفتاة؟ " قالوا: نعم. قال: "أرسلتم معها من يغني؟ " قالت: لا. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إن الأنصار قوم فيهم غزل، فلو بعثتم معها من يقول: أتيناكم أتيناكم ... فحيانا وحياكم"

اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جن سے گانے کا جواز ثابت ہوتا ہے، خلاصہ یہ کہ دونوں طرف صحیح، حسن اور ضعیف درجے کی روایات موجود ہیں، جیسا کہ اباحت اور تحریم دونوں سے متعلق صحیح اور حسن درجے کی روایات پیچھے نقل کی جا چکی ہیں۔

پیچھے ذکر کی گئی تمہید کے بعد سوال کے جواب کے سلسلے میں دو باتیں پیشِ خدمت ہیں:

پہلی بات: پہلی بات یہ کہ سوال میں موسیقی اور غناء یعنی گانے کا ایک ہی حکم ذکر کیا گیا ہے، جبکہ موسیقی کے جواز پر ذخیرہٴ احادیث میں تلاش کے باوجود کوئی روایت نہیں ملی، اسی لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ کا موسیقی کی حرمت پر اتفاق ہے، جیسا کہ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے، لہذا موسیقی کے جواز پر اگر کوئی روایت منقول ہو تو اس کی باحوالہ صراحت کی جائے تو پھر اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔باقی عید وغیرہ کے موقع پر دف بجانے کا حکم حدیث سے ثابت ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس کا رواج کم ہے، زیادہ تر موسیقی اور میوزک چلایا جاتا ہے، جس کے جواز کی تصریح منقول نہیں۔

دوسری بات: گانا گانے سے متعلق تمام روایات کو موضوع اور من گھڑت قرار دے کر بالکلیہ ان کی نفی کرنا کسی طرح بھی درست نہیں، کیونکہ گانے کی حرمت سے متعلق تین صحیح درجے کی روایات پیچھے نقل کی گئی ہیں، جن میں سے ایک بخاری شریف کی روایت بھی ہے، جبکہ مجموعی اعتبار سے بخاری شریف کی صحت پر امت کا اتفاق ہے اور علامہ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے معرفة انواع علوم الحدیث (جو کہ مقدّمہ کے نام سے معروف ہے) میں بخاری شریف کی تمام روایات کو قابلِ استدلال قرار دیا ہے۔

 اسی طرح گانے کی حرمت اور اباحت سے متعلق بہت سی روایات کو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اپنے  رسالہ "کشف النماء عن وصف الغناء" میں جمع کیا ہے اور اس کے بعد  لکھا ہے، جس كا خلاصہ یہ ہے کہ:

فی الجملہ ان روايات کا معنی ثابت ہے، اگرچہ ان میں سے بعض روایات میں سند کے اعتبار سے کلام ہے، لیکن تمام روایات کا انكار اور ان كو ضعیف قرار دینا مشکل ہے، کیونکہ ان میں سے بعض صحیح اور بعض حسن درجے کی بھی ہیں، لہذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گانے اور باجے وغیرہ بجانے اور سننے کی حرمت ثابت ہے، البتہ بعض  مواقع میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت بھی ثابت ہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

ٲحکام القران للشیخ المفتی محمد شفیع (220/3)إدارة القران والعلوم الإسلامية:

فهذا ما تيسر للعبد الضعيف ما ورد في الغناء والسماع من الروايات، وقد بلغ عدد المرفوع منها إلى أربعين حديثا، منها صحاح، ومنها حسان، ومنها ضعاف، ومنها ما اختلف في وضعه وثبوته، ثم منها ما يدل على تحريم الغناء والمزامير مطلقا، ومنها ما يرشد إلى التفصيل  حتي يحل بعضه ويحرم بعضه۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إن من أمعن النظر في الروايات المذكورة وجدها ثابتة المعنى في الجملة، وإن تكلم في بعض الروايات إسنادا وسلّم ضعفها بل كونها في أقصى مراتب الضعف، ولكن لا سبيل إلى إنكار الجميع ولا تضعيف الجميع، بل لابد من تصحيح البعض وتحسين البعض من كل قسميها أعني الروايات المحرمة للغناء والمبيحة له، فلاجرم يتخلص عند الناقد البصير أنه ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم تحريم الغناء والمزامير وسماعه، وكذلك ثبت عنه صلى الله عليه وسلم إباحة بعضه في بعض المواضع۔

لہذا حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ انہوں نے گانے کی حرمت سے متعلق تمام روایات کو ضعیف کہا ہے۔

اسی طرح حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی نسبت کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور حوالہ کے یہ کہنا کہ" کہ ”گانے کی حرام ہونے کے بارے میں روایات صحیح، حسن تو کیا ضعیف کے درجے میں بھی نہیں" محلِ نظر ہے، کیونکہ انہوں نے فتح الباری میں معازف سے متعلق بخاری شریف کی حدیث پر ابن حزم ظاہری کی طرف سے کیے گئے انقطاع کے اعتراض کا رد کرتے ہوئے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور حافظ صاحب رحمہ اللہ نے امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالےسے نقل کیا ہے کہ معازف میں گانا بھی شامل ہے، دیکھیے عبارات:

فتح الباري لابن حجر (10/ 52) دار المعرفة، بيروت:

 ولا التفات إلى أبي محمد بن حزم الظاهري الحافظ في رد ما أخرجه البخاري من حديث أبي عامر وأبي مالك الأشعري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ليكونن في أمتي أقوام يستحلون الحرير والخمر والمعازف الحديث من جهة أن البخاري أورده قائلا قال هشام بن عمار وساقه بإسناده فزعم بن حزم أنه منقطع فيما بين البخاري وهشام وجعله جوابا عن الاحتجاج به على تحريم المعازف وأخطأ في ذلك من وجوه والحديث صحيح معروف الاتصال بشرط الصحيح والبخاري قد يفعل مثل ذلك لكونه قد ذكر ذلك الحديث في موضع آخر من كتابه مسندا متصلا.

فتح الباري لابن حجر (10/ 55) دار المعرفة، بيروت:

ونقل القرطبي عن الجوهري أن المعازف الغناء والذي في صحاحه أنها آلات اللهو وقيل أصوات الملاهي وفي حواشي الدمياطي المعازف الدفوف وغيرها مما يضرب به ويطلق على الغناء عزف وعلى كل لعب عزف.

اسی طرح علامہ سخاوی رحمہ اللہ کے بارے میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ ”ان روایات کی کوئی اصلیت (بنیاد) نہیں“، جبکہ المقاصد الحسنہ میں یہ عبارت ہمیں کہیں نہیں ملی، البتہ گانے سے متعلق صرف ایک روایت "الغناء واللهو ينبتان النفاق في القلب" کو  علامہ نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے "لایصح" کہہ کر نقل کیا ہے(المقاصد الحسنة: ص: 474) لیکن کسی ایک روایت کے ضعیف یا صحیح نہ ہونے سے دیگر صحیح احادیث کی نفی نہیں کی جا سکتی۔  

باقی علامہ نووی رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کی گئی عبارت”گانے کی حرمت پر کوئی بھی حدیث درست نہیں۔“بھی تلاش کے باوجود ان کی کتب میں کہیں نہیں ملی، بلکہ المجموع شرح المہذب میں علامہ نووی رحمہ اللہ نے گانے کی حرمت کا ذکرکیا ہے، لہذا اگر ان کے نزدیک گانے کی حرمت پر کوئی بھی حدیث درست نہیں تو پھر انہوں نے گانے کی حرمت کا ذکر کیسے کیا؟ دیکھیے عبارت:

المجموع شرح المهذب (12/ 322) دار الفكر،بيروت:

(وإن اشترى جارية فوجدها مغنّية لم ترد لأنه لا تنقص به العين ولا القيمة فلم يعد ذلك عيبا)

(الشرح) هذا مذهبنا وحكى أصحابنا عن مالك أن له الخيار لأن الغناء حرام وذلك نقص فيها ومنع بعض أصحابنا تحريمه وبتقدير تسليمه فالمحرم فعله فله أن يمنعها من استعماله.

اس کے علاوہ سوال میں اور بھی جن اکابر علمائے کرام کی طرف نسبت کر کے گانے اور موسیقی کی تمام روایات کو موضوع قرار دیا گیا ہے ان کی عبارات باحوالہ نقل کی جائیں تو ان پر غور کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک گانے کے فی نفسہ شرعی حکم کا تعلق ہے؟ تو چونکہ حرمت اور اباحت دونوں قسم کی روایات موجود ہیں، اس لیے گانے کو مطلقاً حرام یا مطلقاً حلال قرار دینا مشکل ہے، بلکہ دونوں قسم کی روایات پر عمل کرتے ہوئے حرمت کے حکم کے باوجود بعض صورتوں میں اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے، چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں دونوں قسم کی روایات نقل کرنے کے بعد تطبیق دیتے ہوئے بعض صورتوں میں شرائط کے ساتھ گانے کی گنجائش دی ہے، اسی طرح انہوں نے معارف القرآن میں "ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم" (لقمان: ۶)کی آیت کے تحت گانے سے متعلق روایات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:

"اس کے بالمقابل بعض روایات سے غنا یعنی گانے کا جواز معلوم ہوتا ہے، یہ روایات بھی اس رسالہ میں جمع کر دی گئی ہیں، تطبیق ان دونوں میں اس طرح ہے کہ جو گانا اجنبی عورت کا ہو یا اس کے ساتھ طبلہ سارنگی وغیرہ مزامیر ہوں وہ حرام ہے، جیسا کہ مذکور الصدر آیاتِ قرآن اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا اور اگر محض خوش آوازی کے ساتھ کچھ اشعار پڑھے جائیں اور پڑھنے والی عورت یا امرد نہ ہو اور اشعار کے مضامین بھی فحش یا کسی دوسرے گناہ پر مشتمل نہ ہوں تو جائز ہے۔ بعض صوفیائے کرام سے جو سماعِ غنا منقول ہے وہ اسی قسم کے جائز غنا پر محمول ہے۔"        (معارف القرآن:28/5)

مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ اگر گیت، گانا یا اشعار وغیرہ کسی ضرورت کے موقع مثلا دفعِ وحشت، قطعِ سفر یا کسی اور جائز مقصد کے لیے بغیرلہو ولعب کے ترنم کے ساتھ پڑھے جائیں تو اس کی درج ذیل شرائط کے ساتھ گنجائش ہے:

  1. گانا گانے والی غیرمحرم عورت یا امرد لڑکا نہ ہو۔
  2. گانے کے ساتھ میوزک، موسیقی اور ڈھول وغیرہ نہ ہو۔
  3. اشعار کا مضمون فحش اور خلافِ شرع امور پر مشتمل نہ ہو۔
  4. اس کی وجہ سے کسی امرِ شرعی جیسے نماز وغیرہ کا ترک لازم نہ آتا ہو۔

لیکن اگر مذکورہ بالا شرائط میں سے کوئی ایک شرط کی بھی نہ پائی جائے، جیسا کہ آج کل مروّجہ گانے میں موسیقی کے ساتھ ساتھ گانا گانے والی خواتین ہوتی ہیں تو ایسا گانا گانا حرام اور ناجائز ہے، جیسا کہ روایات اور فقہائے کرام رحمہم اللہ کی عبارات میں اس کی تصریح ہے۔

 


[1] شیخ شعیب الارنؤوط اور بشار عواد صاحب نے بھی حافظ ذہبی رحمہ اللہ كے قول كو ترجيح ديتے ہوئے تحرير تقريب التہذيب(ص:343) میں مذكوره راوی پر مجہول كا حكم لگايا، جو كہ جرح كا پانچواں درجہ ہے۔

[2] السنن الكبرى للبيهقي (10/ 374) دار الكتب العلمية، بيروت:

ولهذا شواهد من حديث علي, وعمران بن حصين , وعبد الله بن بسر , وسهل بن سعد , وأنس بن مالك , وعائشة رضي الله عنهم , عن النبي صلى الله عليه وسلم۔

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (5/ 151) دار الرسالة العالمية،بيروت:

قال شعيب الأرنؤوط: إسناده ضعيف، مالك بن أبي مريم لم يرو عنه غير حاتم بن حريث ولم يؤثر توثيقه عن غير ابن حبان، وقال ابن حرم: لا يدرى من هو، وقال الذهبي: لا يعرف.

 وأخرجه بتمامه البخاري في "تاريخه" 1/ 305، وابن حبان (6758)، والطبراني في "الكبير" (3419)، وفي "مسند الشاميين" (2061)، والبيهقي 8/ 295 و10/ 221، وفي "الشعب" (5114) من طريقين عن معاوية بن صالح، بهذا الإسناد.

وأخرجه مختصرا بقصة الخمر أحمد (22950) وعنه أبو داود (3688) عن زيد بن الحباب، عن معاوية بن صالح، به. ولفظه: "ليشربن ناس من أمتي الخمر يسمونها بغير اسمها".

وهذا القدر منه له شواهد يصح بها من حديث عائشة عند الحاكم 4/ 147، والبيهقي 8/ 294 - 295، وعن عبادة بن الصامت عند أحمد (22759) وسلف عند ابن ماجه برقم (3385)، وعن أبي أمامة وقد سلف برقم (3384).

[3] قال شعيب الأرنؤوط: إسناده ضعيف لجهالة الشيخ الراوي عن أبي وائل، وأبو وائل: هو شقيق بن سلمة. وأخرجه البيهقي في "السنن" 10/ 223 من طريق حرمي بن عمارة، عن سلام، بهذا الإسناد. وفيه زيادة: "كما ينبت الماء البقل".

وأخرجه موقوفا المروزي في كتاب "تعظيم قدر الصلاة" (680)، والبيهقي في "السنن" 10/ 223، وفي "الشعب" (4744) و (4745) من طريق حماد، عن إبراهيم ابن يزيد النخعي، عن ابن مسعود، ورجاله ثقات، وثبت عن إبراهيم النخعي أنه قال: إذا حدثتكم عن رجل عن عبد الله فهو الذي سمعت، وإذا قلت: قال عبد الله: فهو عن غير واحد عن عبد الله. انظر المزي "تهذيب الكمال" 2/ 239. وقال البيهقي في "الشعب": وقد روي هذا مسندا بإسناد غير قوي.

وقال ابن رجب في "شرح العلل" 1/ 294 , 295: وهذا يقتضي ترجيح المرسل على المسند، لكن عن النخعي خاصة فيما أرسله عن ابن مسعود خاصة. وقد صحيح الموقوف على ابن مسعود ابن القيم في "إغاثة اللهفان" 1/ 248.

وأخرجه البيهقي في "السنن" 10/ 223 من طريق سعيد بن كعب المرادي، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد، عن ابن مسعود. وفيه زيادة. ومحمد بن عبد الرحمن لم يدرك ابن مسعود.

وأخرجه عبد الرزاق في "مصنفه" (19737) من قول إبراهيم النخعي. ورجاله ثقات.

[4] قال شعيب الأرنؤوط: إسناده صحيح. أبو الحسين المدني: هو خالد بن ذكوان. وأخرجه البخاري (4001)، وأبو داود (4922)، والترمذي (1115)

 

حوالہ جات
ٲحکام القران للشیخ المفتی محمد شفیع (220/3)إدارة القران والعلوم الإسلامية:
فالتوفیق بین الروایات أنها حرمت كل ما تمحض لهوا لا طائل تحته أو كان ملهيا عما يهم الإنسان كالغناء المعتاد اليوم ، بأباح الغناء أحيانا عند حادث سرور مشروع، أو قطع سفر أو حمل ثقيل، أو دفع الوحشة عن نفسه في الخلوات وكذالك أباح من الالات مالم يتمحّض للهو والإطراب بل قد يستعمل في اللهو وقد يستعمل في الإعلان كالدف ولا كذلك سائر المعازف، فإنك لا تكاد تجد في كل ما جمعنا لك من الروايات المحرّمة.
والحاصل أن أحاديث الإباحة تختصه بمواضع مخصوصة بشرائط مخصوصة فهي كالمستثناة من أحاديث الحرمة، وقال بعض الإجلة: ليس في الخبر الإباحة مطلقا بل قصارى مافيه إباحته في سرور شرعي كما في الأعياد والأعراس انتهى. قلت: ويؤيده قوله عليه السلام في حديثِ عائشة لأبي بكر: "وهذا عيدنا " فقد أباحه بعلة العيد لامطلقا، فلا تضاد ورلاتعارض.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 409) دار الفكر، بيروت:
 (ولا من يغني للناس) لأنه يجمع الناس على ارتكاب كبيرة.۔۔۔۔۔۔۔۔فإن قلت: تعليل المصنف - رحمه الله - يجمع الناس على كبيرة يقتضي أن التغني مطلقا حرام وإن كان مفاده بالذات أن الاستماع كبيرة لأنهم إنما يجتمعون على الاستماع بالذات لأن كون الاستماع محرما ليس إلا لحرمة المسموع، وليس كذلك فإنه إذا تغنى بحيث لا يسمع غيره بل نفسه ليدفع عنه الوحشة لا يكره. وقيل لا يكره إذا فعله ليستفيد به نظم القوافي ويصير فصيح اللسان.
وقيل ولا يكره لاستماع الناس إذا كان في العرس والوليمة، وإن كان فيه نوع لهو بالنص في العرس. فالجواب أن التغني لإسماع نفسه ولدفع الوحشة خلافا بين المشايخ. منهم من قال: لا يكره، إنما يكره ما كان على سبيل اللهو احتجاجا بما عن أنس بن مالك - رضي الله عنه - أنه دخل على أخيه البراء بن مالك وكان من زهاد الصحابة وكان يتغنى، وبه أخذ شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله -.ومن المشايخ من كره جميع ذلك، وبه أخذ شيخ الإسلام.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

9/شعبان المعظم 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب