021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایسی وصیت جس پر گواہ نہ ہوں، اس پرعمل ہوگا
76476وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ میری والدہ ماجدہ ۲۹رجب ۱۴۴۳ھ کورضائےالہی سےانتقال کرگئی ہیں اور میرےوالدبزرگوار14برس قبل وفات پاچکےہیں۔ہم تین بھائی اورہماری چاربہنیں ہیں ،سب بھائی بہن شادی شدہ ہیں،میں والدہ صاحبہ کےہمراہ رہائش پذیرتھاجبکہ باقی دونوں چھوٹےبھائی اپنےاپنےگھروں میں رہتےہیں ۔ہماری والدہ محترمہ نےترکےمیں زیورات ،نقدرقم اورکچھ ملبوسات اورگھریلواستعمال کی اشیاءچھوڑےہیں ان اشیاءکی شرعی تقسیم سےمتعلق چندسوالات کےجوابات شریعت کےمطابق درکارہیں،ان جوابات سےمطلع فرماکرممنون ومشکور فرمائیں۔والدہ محترمہ نےاپنی ایک بیٹی کےسامنےیہ کہاتھاکہ میرے زیورات اورنقدرقم مسجدمیں دےدینا،اس وصیت پرشرعاکس طرح عمل کیاجائےگا؟جبکہ اس  وصیت پرکوئی گواہ موجودنہیں۔

وضاحت ازمستفتی:والدہ نےجس بیٹی کےسامنےوصیت کی ہےوہ عاقلہ بالغہ ہےاورہمیں اس کی بات پراعتمادہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میت کےکل ترکہ(نقدی، منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء) میں سےتجہیزوتکفین کاخرچ نکالنےکےبعد،اگران کے ذمہ قرض وغیرہ مالی واجبات کی ادائیگی ہوتوانہیں اداکیاجائےگا،اس کےبعدمرحوم کی جائزوصیت (جیساکہ صورت مسئولہ میں مرحومہ نےوصیت کی)پرعمل کیاجائےگااورباقی ماندہ ترکہ سےایک تہائی تک وصیت کوپوراکیاجائے گا،پھرجوجوترکہ بچےگاوہ وورثاءمیں شرعی حصوں  کےمطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات
قال اللہ تبارك وتعالي:
﴿‌يَاأَيُّهَا ‌الَّذِينَ ‌آمَنُوا ‌شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِينَ ﴾ [المائدة: 106] 
﴿فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (١١) ﴾ [النساء: 11] 
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (7/ 330):
أما الكتاب العزيز فقوله تبارك وتعالى في آية المواريث: {يوصيكم الله في أولادكم} [النساء: 11] إلى قوله جلت عظمته {‌من ‌بعد ‌وصية يوصي بها أو دين} [النساء: 11] و {يوصى بها أو دين} [النساء: 12] و {يوصين بها أو دين} [النساء: 12] و {توصون بها أو دين} [النساء: 12] شرع الميراث مرتبا على الوصية فدل أن الوصية جائزة، وقوله سبحانه وتعالى: {يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدكم الموت حين الوصية اثنان ذوا عدل منكم أو آخران من غيركم إن أنتم ضربتم في الأرض} [المائدة: 106] ، ندبنا سبحانه وتعالى إلى الإشهاد على حال الوصية فدل أنها مشروعة
وأما) السنة فما روي «أن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - وهو سعد بن مالك كان مريضا فعاده رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال يا رسول الله: أوصي بجميع مالي؟ فقال: لا، فقال بثلثي مالي؟ قال: لا، قال: فبنصف مالي؟ قال: لا قال: فبثلث مالي؟ فقال - عليه السلام - الثلث، والثلث كثير إنك أن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالة يتكففون الناس»

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۱۶شعبان۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب