021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیاوالدکی وفات کےبعدورثہ پر والدکےواجبات اداء کرنالازم ہے؟
76533میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

میں عبدالمتین ولدنویدعمر آپ سےاپنےمرحوم والدکےکاروباری معاملات کےمتعلق فتوی کاضرورت مند ہوں،برائےمہربانی راہنمائی فرمادیں۔

میرےمرحوم والدصاحب کاایک ادارےکےساتھ کاروباری ٹھیکہ ساڑھے سات کروڑ کاہواتھا،جس کی لاگت بعدمیں باہمی رضامندی سےسوادس کروڑ تک پہنچ گئی تھی،تقریبا ساڑھے سات کروڑ نقداورڈھائی کروڑ کےعوض پراپرٹی اورپلاٹ کی مد میں ادائیگی طے پائی تھی،نقدرقم تووصول ہوگئی،مگراچانک درمیان میں کچھ اختلافات کی وجہ سےکاروباربند ہوگیا،معاملہ کسی نتیجہ پرپہنچنےسےپہلےہی اس کمپنی کےمالک کاانتقال ہوگیا،پھراس کےبیٹے نےکمپنی کوسنبھالا،میرےوالدصاحب کی اس کمپنی کےمالک کےبیٹےسےملاقات طےتھی،مگراس سےپہلےہی میرےوالدصاحب کابھی انتقال ہوگیا۔

پھرمیں بذات خود اس کمپنی کےمالک کےبیٹے سےاپنےوالدصاحب کےبقایاجات)جوکہ تقربیا ڈھائی کروڑ تھے(کاتقاضا کرنےگیا،جس پراس نے کچھ بھی دینے سےمنع کردیا،الٹامزید رقم کی واپسی کامطالبہ کرنے لگ گیا۔

میرےوالدصاحب نےاپنی تمام جمع پونجی بھی اسی ٹھیکےمیں انویسٹ کررکھی تھی،اس لحاظ سےکسی قسم کی کوئی میراث نہیں بچی،جس کی کوئی حصہ داری ہوسکے۔

اس ٹھیکےکےکام کرنے کےلیےجن کاریگرحضرات سےمیرےوالدصاحب نے کام کروایاتھا،ان کے کھاتے چیک کرنے سےپتہ چلاکہ تقریبا ایک کروڑ ان تمام لوگوں کاواجب الاداء ہے،جس میں سےماسوائےایک بندےکےآج تک کسی نے مجھ سےرابطہ نہیں کیا،جبکہ 80فیصد کاریگرآج بھی اس کمپنی کےلیےکام کررہےہیں،اوران سب کےعلم میں یہ بات ہےکہ میرےوالدصاحب کواس کمپنی سےان کےواجبات نہیں ملے۔تمام کاریگر حضرات کومیرےوالد صاحب نے یہ بات اپنی زندگی میں ہی باورکروائی تھی کہ کمپنی سےواجبات ملنے کی صورت میں ہی ان کےبقایا رقم کی ادائیگی کی جائےگی،مزیدیہ کہ میرےمرحوم والد کمپنی اورکاریگرحضرات کےدرمیان تمام کاروبار زبانی کلامی بنیاد پرطےہواتھا،جس کاکوئی تحریری معاہدہ یاثبوت موجود نہیں ہے۔لہذااب ہم ورثہ اورلواحقین کےلیےکیاشرعی حکم ہوگاکہ اپنےوالدصاحب کےواجبات اداءکرنےکےپابند ہیں یانہیں ؟برائےمہربانی راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں چونکہ والدنےکوئی میراث نہیں چھوڑی کہ جس سےان کےواجبات اداء کیےجاسکیں،اورنہ ہی کوئی وصیت کی گئی ہےتوآپ ورثہ پروالدکاقرضہ اتارناشرعالازم نہیں ہاں اگرآپ حضرات کےپاس اتنی گنجائش ہوتوتبرعاوالدصاحب کاقرضہ اداء کردیاجائےان شاء اللہ ثواب کاباعث ہوگا۔

البتہ کمپنی کےذمہ والدصاحب کی جورقم واجب الاداء تھی وہ اگروصول ہوجاتی ہےتوآپ ورثہ پراس میں سےوالدصاحب کاقرضہ اداءکرنالازم ہوگا،اگرچہ مکمل میراث قرضہ میں ہی چلی جائے،کیونکہ میت کےمال میں سےسب سےپہلےقرضہ اداء کیاجاتاہے۔باقی وصیت اورمیراث کی تقسیم اس کےبعد کی جاتی ہے،تواگرقرضہ کےبعدکوئی مال نہ بچےتومیراث میں بھی حصہ نہ ہوگا۔پ

حوالہ جات
"السراجی فی المیراث "5،6 : الحقوق المتعلقہ بترکۃ المیت :قال علماؤنارحمہم اللہ تعالی تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ الاول یبدأبتکفینہ وتجہیزہ من غیرتبذیرولاتقتیر،ثم تقصی دیونہ من جمیع مابقی من مالہ ثم تنفذوصایاہ من ثلث مابقی بعدالدین ،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

  03/رمضان  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب