021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداددوبھائیوں نےآپس میں تقسیم کرلی،جبکہ میراث میں بہنوں کابھی حصہ تھا۔
76541میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال یہ ہےکہ ہم دوبھائیوں نےجائیدادکوآپس میں باہمی رضامندی سےبرابرتقسیم کرلیاتھا،اب میرےچھوٹےبھائی نےجبرامزیدزمین کاکچھ حصہ جوپہلےمیری ملکیت میں تھا،اس پرقبضہ کرلیاہے،آیامیرےبھائی کایہ قبضہ شریعت کی رو سےجائزہےیاناجائزہے؟برائےمہربانی دونوں سوالوں کاجواب قرآن وحدیث کی روشنی میں مرحمت فرمائیں۔

تنقیح:سائل نےوضاحت کی ہےکہ یہ اسی  زمین کو تقسیم کیا گیا تھا،جس کےبارےمیں سوال کیاگیاہے،اوریہ والدکےانتقال کےبعد تقسیم کی گئی تھی،دونوں بھائی یہ سمجھ رہےتھےکہ یہ میراث نہیں ہے،اس لیےاس  میں بہنوں کاحصہ نہیں ہے۔

والدکےانتقال کےوقت والدہ زندہ تھیں بعدمیں تقریبا 11سال بعد فوت ہوئی ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ جائیدادمیں چونکہ بہنوں اوروالدہ  کابھی شرعاحصہ تھا،اس لیےدونوں بھائیوں کاآپس میں تقسیم کرناشرعادرست نہیں تھااورسابقہ تقسیم  بھی شرعامعتبرنہیں تھی،اب دوبارہ نئےسرےسےتقسیم کی جائےگی۔

مذکورہ جگہ چونکہ والدکی میراث تھی تووالدکی وفات کےوقت جوورثہ زندہ تھے،ان سب کاشریعت کےمطابق حصہ تھا،اوراسی وقت میراث کوتقسیم کرناضروری تھا،اس  وقت چونکہ شریعت کےمطابق میراث کی تقسیم نہیں کی گئی تواب جائیدادکوشریعت کےمطابق تقسیم کیاجائےگا۔

والدکی وفات کےوقت موجودہ ورثہ ایک بیوہ ،دوبیٹےاوردوبیٹیاں  تھیں،ان ورثہ میں تقسیم کاطریقہ یہ تھاکہ زمین کی مارکیٹ ویلیو لگواکرجتنی قیمت  ہو،اس کاآٹھواں حصہ والدہ کاتھا،باقی رقم کو چھ 6  حصوں میں تقسیم کرکےہربھائی کودوحصےاورہربہن کوایک حصہ دیاجائےگا۔

چونکہ والدہ بھی فوت ہوچکی ہیں توان کاحصہ بھی میراث میں اسی طرح تقسیم ہوگا،جس طرح والدکی میراث کی تقسیم کی گئی ہے۔

پھرجن بھائیوں نےزمین آپس میں تقسیم کی ہوئی ہےوہ اگربہنوں کی رضامندی سےبہنوں کوان کےحصےکی قیمت اداء کردیں توبھائیوں کی سابقہ تقسیم شرعادرست ہوجائےگی اورپھراس تقسیم شدہ جگہ میں شرعارہنابھی جائزہوجائےگا۔

حوالہ جات
"صحيح مسلم للنيسابوري"5 /  58:حدثنا أبو بكر بن أبى شيبة حدثنا يحيى بن زكرياء بن أبى زائدة عن هشام عن أبيه عن سعيد بن زيد قال سمعت النبى -صلى الله عليه وسلم- يقول « من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين »۔
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"14 / 495:
 ( فصل ) : وأما صفات القسمة فأنواع : منها أن تكون عادلة غير جائرة وهي أن تقع تعديلا للأنصباء من غير زيادة على القدر المستحق من النصيب ولا نقصان عنه ؛ لأن القسمة إفراز بعض الأنصباء ، ومبادلة البعض ، ومبنى المبادلات على المراضاة ، فإذا وقعت جائرة ؛ لم يوجد التراضي ، ولا إفراز نصيبه بكماله ؛ لبقاء الشركة في البعض فلم تجز وتعاد۔۔۔وعلى هذا إذا ظهر الغلط في القسمة المبادلة بالبينة أو بالإقرار تستأنف ؛ لأنه ظهر أنه لم يستوف حقه ، فظهر أن معنى القسمة لم يتحقق بكماله۔
قال اللہ تعالی فی سورۃ النساء:یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکرمثل حظ الانثیین۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

  03/رمضان  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب