76552 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
کیا طلاق کے بعد بیوی شوہر کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہ سکتی ہے کہ نہیں تفصیل سے بیان کریں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق مغلظہ کےبعدبیوی اورشوہرکےدرمیان نکاح کاتعلق ختم ہوجاتاہےاورپردہ بھی ضروری ہوتاہے،اس لیےبیوی کاشوہرکےساتھ بغیرپردہ کےایک گھرمیں رہناجائزنہیں،بیوی پرلازم ہوگاکہ عدت کےدوران شوہرسےپردہ کااہتمام کرے،اورشوہرپربھی لازم ہےکہ یاتوکہیں اور رہائش اختیار کرےیااگراس گھرمیں آئےتودوسرےکمرےمیں آئےاوراطلاع کرکےآئےتاکہ بےپردگی نہ ہو۔
اگرشوہرسےبدکاری وغیرہ کااندیشہ نہ ہوتوشوہرکےگھربھی عدت گزاری جاسکتی ہے،لیکن اگراس بات پر مکمل یقین نہ ہوکہ میاں بیوی والےتعلقات نہیں ہوں گےتوایسےمیں عورت کےلیےشوہرکےگھر عدت گزارناجائزنہیں ہوگا۔
ہاں اگربہت ہی مجبوری کی صورت ہو،بیوی کےلیےالگ رہنےکاکوئی بندوبست نہ ہوتوپھرشوہرکےگھرالگ کمرہ میں (جہاں شوہرکاآنا جانانہ ہواورملاقات کاخظرہ نہ ہو)رہنےکی گنجائش ہے،بشرطیکہ پردہ وغیرہ کاخیال رکھاجاسکے۔
حوالہ جات
"رد المحتار"12 / 457:
( ولا بد من سترة بينهما في البائن ) لئلا يختلي بالأجنبية ، ومفاده أن الحائل يمنع الخلوة المحرمة ( وإن ضاق المنزل عليهما ، أو كان الزوج فاسقا فخروجه أولى ) لأن مكثها واجب لا مكثه ، ومفاده وجوب الحكم به ذكره الكمال ( وحسن أن يجعل القاضي بينهما امرأة ) ثقة ترزق من بيت المال بحر عن تلخيص الجامع ( قادرة على الحيلولة بينهما ) وفي المجتبى الأفضل الحيلولة بستر ، ولو فاسقا فبامرأة۔
قال : ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج ، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى ۔وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك ؟ قال : نعم ، وأقره المصنف ۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
17/رمضان 1443 ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب |