021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی صورت میں حق حضانت  کی تفصیل  
76553طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

سوال: طلاق ہونے والی بیوی کے پانچ بچے ہیں جو کہ اس وقت حیات ہیں

I:ایک بیٹی جس کی چھ ماہ پہلے شادی ہوگئی ہے

Ii:ایک بیٹا تقریباً اٹھارہ سال کا ہونے والا ہے ۔

Iii:ایک بیٹی جس کی عمر تقریباًساڑھے چودہ سال ہے ۔

Iv:ایک بیٹی جس کی عمر ساڑھے گیارہ سال ہے ۔

V:ایک بیٹا دس سال کا ہے ۔

بچوں کا کیا ہوگا ؟ماں یا باپ کے ساتھ وقت گزاریں  گے؟ تفصیل سے تحریر کریں؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میاں بیوی میں شرعی طریقے سے جدائی ہوجائے(طلاق ،خلع یاخلع کے علاوہ عدالتی فسخ نکاح کے ذریعہ) توحق حضانت(پرورش )میں تفصیل یہ ہے کہ لڑکے کی پرورش کاحق اس کی ماں کوملتاہے،بشرطیکہ وہ سات سال سے کم عمر کاہو،اورلڑکی کی پرورش کاحق بھی بالغ ہونے  تک اس کی ماں کوہے،اس لئےلڑکا 7 سال کے بعد اورلڑکی 9سال کے بعد باپ کے پاس رہنے پرمجبور ہیں،ان کی ماں سے ان کوالگ کردیاجائےگا۔

صورت مسئولہ میں تمام بچوں کی عمر 10سال سےزائدہے،اس لیےاس صورت میں شرعابچوں کی پرورش کاحق ماں کو نہیں،بلکہ بچوں کی پرورش ،تربیت  وغیرہ والد  پرلازم ہے،لیکن اس صورت میں بھی ا گروالد راضی ہویایہ ظن غالب ہوکہ والد بچوں کی اچھی طرح تربیت اورپرورش نہیں کرسکے گا،توپھرمذکورہ بالا مدت حضانت کے بعدبھی بچے والدہ کے پاس رہ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
"رد المحتار " 13 /  53:
( والحاضنة ) أما ، أو غيرها ( أحق به ) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب .
ولو اختلفا في سنه ، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا ( والأم والجدة ) لأم ، أو لأب ( أحق بها ) بالصغيرة ( حتى تحيض ) أي تبلغ في ظاهر الرواية۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

  17/رمضان  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب