021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرنے کہا”میں بیوی کوفارغ کرتاہوں،طلاق دیتاہوں،بیوی کوبتادیں  کہ طلاق دےرہاہوں
76736طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

سوال:السلام علیکم!میراسسرال  کشمیرمیں ہے،جبکہ میکہ حسن ابدال میں ہے،میرےشوہرکی فیصل آباد میں نوکری لگی تووہ مجھے اوربچوں کو ملنے ہمارے گھر آئے،رات کوتقریبا 11بجے وہ یہاں پہنچے،میں  گھرپرنہیں تھی،بچی کو نمونیا ہوگیاتھا اسے لےکر بےوقت ڈاکٹرکےپاس جانا پڑا،بچی کی بیماری کاانہیں علم بھی تھا،مجھے گھرمیں نہ پاکر وہ اس بات کوجھوٹ اوربہانہ سمجھےاوروالدہ سےتلخ کلامی کرکےچلےگئے،تھوڑی دیربعد والدہ کوکال کرکےبولےمیں (بیوی کانام)کوفارغ کرتاہوں،پھربولےمیں اسےطلاق دیتاہوں،اگربیٹی پاس ہےتواسےبتادیں کہ میں اسےطلاق دےرہاہوں،اس کےبعد ہماری کوئی بات نہیں ہوئی،میں نےاپنےکانوں سےکچھ نہیں سنا،یہ سب  والدہ  نےبتایا،بعدمیں جب شوہر سےبات ہوئی توانہوں نے بولاکہ فارغ والاجملہ تومحض ڈرانےاوردھمکانےکی نیت سےبولاتاکہ آئندہ ایسانہ کرو،انہوں  نےآنے سےپہلےSMSکیاتھا،لیکن میں نےنہیں دیکھاتھا،اس لیےانہیں غلط فہمی ہوئی،نیزان کاکہناہےکہ مجھے معلوم ہےکہ تین دفعہ بولنے سےطلاق ہوتی ہے،اس لیےمیں نےتیسری بارفارغ بولا،طلاق نہیں،اورمجھے نہیں معلوم تھاکہ یہ جملہ طلاق کےلیےبھی استعمال ہوتاہے،فارغ سےنہ نیت طلاق کی تھی نہ اس کاعلم تھا،بلکہ گنجائش کی نیت سےبولاتھا تب بھی طلاق واقع ہوگئی؟

انڈرلائن جملےکوبھی طلاق سمجھاجائےگا،یاطلاق کی آگاہی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں شوہرنےپہلی مرتبہ جولفظ استعمال کیا یعنی  میں بیوی کو فارغ کرتاہوں ،اس سےطلاق واقع ہونےکےبارےمیں تفصیل یہ ہےکہ :

فارغ کالفظ اگرمذکورہ شخص کے علاقےکےعرف میںصرف طلاق کے لئے استعمال ہوتاہے،ان الفاظ سے طلاق کے علاوہ کوئی اورمعنی نہیں  سمجھاجاتاتواس صورت میں اس سے طلاق رجعی  واقع ہوگی،اورعدت کےاندرقولی یاعملی رجوع سے یہ عورت دوبارہ اس کی بیوی بن جائے گی ۔

اس صورت میں اگرمذکورہ الفاظ ایک دفعہ کہنےکےبعدطلاق رجعی کی عدت کےاندراندردوسری اورتیسری دفعہ بھی کہےگئےتومذکورہ الفاظ سےطلاق مغلظہ واقع ہوجائےگی،جس کےبعد بغیرحلالہ کےنکاح نہیں ہوسکتا۔

اوراگرطلاق رجعی کی عدت گزرگئی تھی پھرمذکورہ الفاظ کہےگئےتومزیدالفاظ سےطلاق واقع نہ ہوگی،اس صورت میں دوبارہ نکاح ہوسکتاہے۔

اوراگرفارغ کالفظ طلاق کے علاوہ دیگرمعنوں(عقل سے فارغ ،کام سے فارغ وغیرہ)میں بھی استعمال ہوتاہےتواس صورت میں فارغ کے لفظ سے طلاق اس وقت واقع ہوگی جب طلاق کی نیت ہویاکوئی ایساقرینہ پایاجائے جوطلاق کے معنی کی تعیین کرےاوراس صورت میں طلاق بائن ہوگی ۔لہذااگرفارغ کالفظ مذکوہ شخص کےعلاقے میں متعددمعنوں میں استعمال ہوتاہےتواس صورت میں قرینہ (لڑائی کاموقع،اورطلاق کامطالبہ)کے پائے جانے کی وجہ سے ایک طلاق بائن ہوئی ،دوبارہ نکاح کے بغیریہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہوگی۔

موجودہ صورت میں مستفتیہ کی وضاحت کےمطابق اگرچہ فارغ کالفظ شوہر کےعرف میں طلاق کےلیےواضح طورپر استعمال نہیں ہوتا،لیکن میاں بیوی کےدرمیان لڑائی جھگڑےکاموقع تھااوراس دوران فارغ کالفظ استعمال کیا گیاہے،اس لیےاگرنیت نہ بھی ہو تو کنائی ہونے کی وجہ سےاس لفظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے،اوراس کےبعد متصل صریح طلاق کےالفاظ استعمال کیےگئےہیں تودوسری صریح طلاق رجعی بھی سابقہ طلاق بائن کی وجہ سےبائنہ بن گئی تودوطلاق بائن واقع ہوگئ ہیں ،اس کےبعد کالفظ بظاہر پہلی طلاق کی خبر ہے،اس لیےمزید تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی،مذکورہ صورت میں میاں بیوی کادوبارہ نکاح ہوسکتاہے،اورنکاح کےبعد طلاق کالفظ استعمال کرنےمیں احتیاط کرنالازم ہے،کیونکہ اگرایک دفعہ بھی طلاق کالفظ استعمال کرلیاگیاتوطلاق مغلظہ واقع ہوکر حرمت مغلظہ ہوجائےگی،جس کےبعد بغیر حلالہ کےدوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکےگا۔

حوالہ جات
"رد المحتار" 3 / 329:
والحاصل أن المتأخرين خالفوا المتقدمين في وقوع البائن بالحرام بلا نية حتى لا يصدق إذا قال: لم أنو لاجل العرف الحادث في زمان المتأخرين، فيتوقف الآن وقوع البائن به على وجود العرف كما في زمانهم۔
وأما إذا تعورف استعماله في مجرد الطلاق لا بقيد كونه بائنا يتعين وقوع الرجعي به كما في فارسية سرحتك، ومثله ما قدمناه في أول باب الصريح من وقوع الرجعي بقوله: سن بوش أو بوش أو في لغة الترك مع أن معناه العربي أنت خلية، وهو كناية، لكنه غلب في لغة الترك استعماله في الطلاق، هذا ما ظهر لفهمي القاصر، ولم أر أحدا ذكره وهي مسألة مهمة كثيرة الوقوع، فتأمل۔
"رد المحتار" 11 / 193:( الصريح يلحق الصريح و ) يلحق ( البائن ) بشرط العدة ( والبائن يلحق الصريح ) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح ، فمنه الطلاق الثلاث فيلحقهما ، وكذا الطلاق على مال فيلحق الرجعي ويجب المال ، والبائن ولا يلزم المال كما في الخلاصة فالمعتبر فيه اللفظ لا المعنى على المشهور۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

  23/رمضان  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب