021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ،دوبیٹے،سات بیٹیوں میں جائیدادکی تقسیم
76813میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:محترم جناب مفتی صاحب!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میرےوالدصاحب تقریبا 87سال کی عمرمیں 22رمضان المبارک 1443 ھج کورضائےالہی سےوفات پاگیے،اللہ ان کی کامل مغفرت فرمائے،اورکروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے(آمین)

والدصاحب مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ (والدہ)بیٹے دو(مجھ سمیت)7بیٹیاں  سبھی اولاد شادی شدہ ہیں۔

مسئلہ نمبر ۱:مسئلہ درپیش یہ ہےکہ والدصاحب تقریبا 30سال سے ریٹائرڈتھےمگرگھرکےسربراہ تھے،والدصاحب اوروالدہ صاحبہ کی تمام ضروریات دونوں بیٹے مل کرکرتےتھے،والدصاحب اوروالدہ صاحبہ ساتھ رہتےتھے،دونوں بیٹے نوکری اورروزگارکی غرض سے دوسرےشہرمیں رہتےہیں،مگرتمام اخراجات کی رقم یاتوبینک کےذریعےیاکیش والدصاحب کودیاکرتےتھے،دراصل والدہ صاحبہ پہچان کے ساتھ رقم بھی گن نہیں پائیں گی،اسی وجہ سےبینک اکاؤنٹ والدصاحب کےنام سےتھا،اوربینک کاآپریشن والدصاحب ہی کیاکرتےتھے،مگربینک سےرقم نکلواکروالدہ صاحبہ کےحوالےرکھنےکی غرض سےدیدیتےتھے،اندرونی گھرکےاخراجات والدہ صاحبہ اورباہرکےاخراجات والدصاحب کرتےتھے۔

مسئلہ نمبر ۲۔مکان کی جب ضرورت پڑی توبیٹوں نےوالدصاحب کورقم دی اورانہوں نے والدہ کےنام پرمکان خریدلیا۔(فنڈزبیٹےنےدیے)

مسئلہ نمبر۳۔اسی طرح جب والدین کوگاڑی کی ضرورت ہوئی توگاڑی کی رجسٹریشن والدصاحب نے اپنے نام کروائی (فنڈلڑکوں نے دیے)

مسئلہ نمبر ۴۔زیورات :والدہ کومیکےسےزیورات ملےتھے،اسی طرح والد صاحب کوبھی ان کے والدین سےترکہ میں زیورات ملےتھے،والدہ کےزیورات فی زمانہ ڈیزائن کےاعتبارسے مروج تھے،لہذاوالدصاحب اوروالدہ صاحبہ کےباہمی مشورےسےان لوگوں نے(والدہ کےزیورات)بیٹےاوربیٹیوں کےشادی بیاہ وغیرہ میں دیدیےمگروالدصاحب کوملنے والے زیورات کو قدیم اوربے تکے(ناقابل استعمال )ہونے کی وجہ سےوالدہ نےاپنے پاس ہی رکھاکہ یہ ہمارےلیے برےوقت میں کام آئیں گے۔(خدانخواستہ)

والدصاحب کی وفات کےبعد کسی بھی اولادنے ترکہ کےحوالےسےکوئی مطالبہ یاخواہش نہیں کی،البتہ میرےدل میں کچھ خیال آیاکہ کیاوالدہ صاحبہ ان رقوم کواورچیزوں کواستعمال کرسکتی ہیں  یانہیں؟لہذامیں نے والدہ سےکہاکہ ان رقوم ابھی استعمال نہ کریں،اورنئےسرےسےکچھ رقم کابندوبست کرکےوالدہ کےحوالے کردی تاکہ روزمرہ کےمعاملات (خرچہ،گھریلواخراجات،بیٹیوں کاآناجانا وغیرہ)کووہ  بہ خوبی چلاسکیں،کیونکہ والدصاحب کی غیرموجودگی میں والدہ ہی اب اس گھرکی سربراہ ہیں۔

لہذاآپ سےالتماس ہے کہ اوپر درج حالات اورواقعات کی روشنی میں شرعی حکم کے مطابق  روشنی ڈالیےکہ کیاوالدہ محترمہ ان پیسوں کواستعمال میں لے سکتی ہیں یانہیں؟جوان کے پاس والدصاحب نے رکھوائےتھے،اوربینک اکاؤنٹ کی رقم ۔

اسی طرح گاڑی ،مکان ،زیورات کےبارےمیں بھی وضاحت فرمادیں،نیزاگرترکہ بنتاہےتوکس شرح سے؟

برائےکرم راہنمائی فرماکرشکریہ کاموقع عنایت فرمائیں ۔جزاک اللہ خیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگربیٹوں نےمکان اورگاڑی   کی رقم  صرف والدکو ہی دی تھی(جیساکہ سوال میں ذکرکیاگیاہے)توپھر مذکور ہ مکان اورگاڑی والدکےشمارہوں گےاورمیراث میں تقسیم کیےجائیں گے۔

ایسی صورت میں مکان ،گاڑی اوروالدکےذاتی زیورات تمام ورثہ میں شریعت کےمطابق تقسیم ہوں گے۔

تقسیم کاطریقہ یہ ہوگاکہ:مکان،گاڑی اوروالدکےزیورات کی مارکیٹ ویلیو لگوائی جائےگی،تینوں چیزوں کی مالیت اوروالدکی دیگرجائیداد(اگرہوتواس)کی رقم کوبھی شامل کرکےمجموعی مالیت کاآٹھواں حصہ والدہ کاہوگا،باقی بیٹے بیٹیوں میں اس طرح تقسیم  کیاجائےگاکہ بیٹوں کو بیٹیوں کےمقابلےمیں دوگناحصہ ملےگا۔

اگرعددی اعتبارسےتقسیم کیاجائےتوکل میراث کے88 حصےکیےجائیں گے،بیوہ(والدہ)کو 11حصے،دوبیٹوں میں سےہربیٹے کو14 حصےاورسات  بیٹیوں میں سےہربیٹی کو 7حصےدیےجائیں گے۔

اگرفٰیصدی اعتبارسےتقسیم کیاجائےتوکل میراث کا% 12.5 حصہ  والدہ کوملےگا،باقی میراث بیٹے بیٹیوں میں تقسیم ہوگی، ہربیٹی کو7.9545%فیصداورہربیٹے کو% 15.9090فیصد حصہ دیاجائےگا۔

ہاں اگروالداوروالدہ دونوں کوالگ الگ رقم دی گئی،اس طورپرکہ زندگی میں والدہ کاالگ سےحصہ اورملکیت سمجھی جاتی تھی توپھرمکان میں والدکی ملکیت کاجتناحصہ ہوگاوہ میراث ہوگاباقی والدہ کی ذاتی ہوگی ۔

اسی طرح اگرمکان والدنےوالدہ کےنام اس طورپرکروایاہوکہ وہ اس طرح کرنے سے اپنی زندگی میں آپ کی والدہ کوہبہ کرناچاہتےتھےاوراپنی ہی زندگی میں قبضہ وغیرہ بھی دےدیاتھا،تواس صورت میں یہ مکان والدہ کاذاتی ہوگا،اس صوورت میں والدکی میراث کےطورپر تقسیم نہیں ہوگااوراگرزندگی میں کوئی ہبہ گفٹ وغیرہ کاتذکرہ نہیں کیا گیاتووہ مکان والدکاہی سمجھا جائےگااورمذکورہ بالاطریقہ کےمطابق وراثت میں تقسیم ہوگا۔

واضح رہےکہ کوئی وارث ترکہ کامطالبہ یاخواہش نہ بھی کرےتب بھی شریعت کاحکم ہےکہ وفات کےبعد جتناجلدممکن ہوشریعت کےمطابق میراث کی تقسیم کردی جائے۔

جوپیسے والدنے رکھوائےتھے،والدہ کے لیےان کااستعمال شرعادرست نہیں وہ میراث کی مجموعی رقم میں شامل ہوں گے،ہاں میراث کی تقسیم کےبعدتمام ورثہ راضی ہوں تووالدہ کوبھی دیے جاسکتےہیں ۔

اسی طرح اگرتمام ورثہ راضی ہوں توگاڑی بھی والدہ کودی جاسکتی ہے۔

حوالہ جات
"سورۃ النساء" آیت 12:وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا۔
" شرح المجلۃ" 1/473 :یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض ،فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"شرح المجلۃ"1 /462:وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

15/شوال  1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب