021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک کے لاکر میں رکھے ہوئے ہوئے زیورات ہبہ کرنے کا حکم
77007ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

مرحومہ نے انتقال سے قبل بارہا صراحت کی تھی کہ میرے پاس موجود زیور میری تینوں بیٹیوں کا ہے،نیز انہوں  نے بینک لاکرز میں رکھے زیورات پر  بیٹیوں  کو اختیار دیتے ہوئے  بیٹیوں  کو دستخط کے ذریعے لاکرز آپریٹ کرنے کااختیار دلوادیا تھا۔ ایسی صورت میں یہ زیور میراث میں تقسیم ہوگا یا تینوں بیٹیا ں  ہی اس کی مالک ہوں گی؟ (مرحومہ کی جانب سے درج بالا صراحت کے گواہان تینوں بیٹیاں اور لے پالک بیٹا ہے)۔

تنقیح: سائل (محمود صاحب) نے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے فون پر بتایا کہ:

  • مرحومہ نے زیورات میں تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کا حصہ الگ الگ متعین کر کے نہیں بتایا تھا، بس یہ کہا تھا کہ میرے پاس موجود زیور تینوں بیٹیوں کا ہے۔ ظاہر اور واضح بات ہے کہ وہ تینوں کو برابر برابر دینا چاہ رہی تھی۔
  • لاکر میں موجود زیورات ایسے ہیں جن کی تقسیم تینوں بہنیں آرام سے کرسکتی ہیں، اور تقسیم کے بعد وہ قابلِ استعمال ہوں گے۔ 
  • بینک کے لاکر میں جو چیز رکھی ہوتی ہے، اس کی ایک چابی بینک کے پاس ہوتی ہے، دوسری چابی چیز رکھنے والے کے پاس، اگر وہ لاکر سے چیز نکالنے کا اختیار کسی اور کو دینا چاہے تو اس کے لیے بینک جاکر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ مرحومہ نے دو بیٹیوں کو لے جاکر ان کے دستخط کرائے تھے، اور ان کو وہاں سے زیور نکالنے کا اختیار دیا تھا۔
  • لاکر کی چابی والدہ کے گھر پہ ان کی الماری ہی میں رکھی ہوئی تھی، البتہ بیٹیاں چابی لے کر خود آپریٹ کرسکتی تھیں؛ کیونکہ بینک میں ان کو یہ اختیار دیدیا تھا کہ وہ جب چاہیں آپریٹ کرلیں۔   
  • تیسری بیٹی کے دستخط نہ ہونے کی کوئی ایسی وجہ نہیں  تھی کہ اس کو اختیار دینا مقصود نہیں تھا، بلکہ اس کے بچے چھوٹے تھے، نیز وہ سسرال کے ساتھ رہتی تھی، اس لیے اس کے اکثر کام اس کی یہ دونوں بڑی بہنیں کرتی تھیں، چنانچہ یہاں پر بھی ان دونوں نے بینک جا کر دستخط کیے۔ باقی والدہ نے بار بار کہا تھا کہ زیور تینوں کا ہے۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ کسی چیز کا ہبہ (گفٹ) صرف زبانی یا تحریری طور پر دینے سے تام (مکمل) نہیں ہوتا، بلکہ ہبہ اس وقت تام ہوتا ہے جب ہبہ دینے والا جس کو ہبہ دینا چاہ رہا ہو، اسے باقاعدہ موہوبہ چیز کا قبضہ بھی دیدے، قبضہ چاہے حقیقی ہو، یا حکمی۔ اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق قابلِ تقسیم اشیاء (وہ اشیاء جن سے تقسیم کے بعد بھی وہ فائدہ اٹھایا جاسکے جو تقسیم سے پہلے اٹھایا جاتا ہو) کا ہبہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب ہبہ کرنے والا موہوبہ چیز تقسیم کر کے ہر شخص کو اس کا حصہ الگ الگ کر کے دیدے۔  

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں زیورات کا ہبہ تام نہیں ہوا تھا، اور وہ زیورات مرحومہ کی ملکیت سے نکل کر اس کی بیٹیوں کی ملکیت میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ ہبہ تام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مرحومہ نے اپنی بیٹیوں کو زیورات کا نہ حقیقی قبضہ دیا، نہ حکمی، اور قبضہ کے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔ حقیقی قبضہ نہ ہونا تو واضح ہے، اور حکمی قبضہ اس لیے نہیں ہوا کہ انہیں چابی نہیں دی گئی۔ صرف بینک میں دو بیٹیوں کے دستخط کرنے کو قبضۂ حکمی نہیں کہا جاسکتا، جبکہ لاکر کی چابی والدہ ہی کے پاس رہی۔ ہبہ تام نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق یہ زیورات قابلِ تقسیم ہیں، اور قابلِ تقسیم چیز مشاعًا ( یعنی کہ ہر ایک کا حصہ الگ الگ متعین نہ ہو) ہبہ کرنے سے ہبہ تام نہیں ہوتا۔  

لہٰذا اب یہ زیورات صرف بیٹیوں کو نہیں ملیں گے، بلکہ مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثا میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے۔

حوالہ جات
البحر الرائق (7/ 286):
قوله ( في محوز مقسوم ومشاع لا يقسم ) أي تجوز الهبة فيما ذكر.  قيد بالمحوز؛ لأن المتصل كالثمرة على الشجر لا تجوز هبته، وقيد المشاع بما لم يقسم؛ لأن هبة المشاع الذي تمكن قسمته لا يصح.  وأطلقها فشمل الهبة من الشريك مشاعا يقسم.
 الدر المختار (5/ 690):
(والتمكن من القبض كالقبض فلو وهب لرجل ثيابا في صندوق مقفل ودفع إليه الصندوق
لم يكن قبضا) لعدم تمكنه من القبض (وإن مفتوحا كان قبضا لتمكنه منه) فإنه كالتخلية في البيع، اختيار. وفي الدرر: والمختار صحته بالتخلية في صحيح الهبة لا فاسدها، وفي النتف: ثلاثة عشر عقدا لا تصح بلا قبض.
رد المحتار (5/ 690):
قوله ( صحته ) أي القبض بالتخلية.  قال في التاترخانية: وهذا الخلاف في الهبة الصحيحة فأما الهبة الفاسدة فالتخلية ليست بقبض اتفاقا والأصح أن الإقرار بالهبة لا يكون إقرارا بالقبض،   خانية.
تکملة رد المحتار (8/ 434):
قوله (والتمكن من القبض) أي العادي لا العقلي وموضوع هذا فيما إذا قبض الموهوب له وغيره،  وأما التمكن بالتخلية فقد ذكره بعد ط.
قوله (كالقبض) ولهذا قال في الاختيار: ولو وهب من رجل ثوبا فقال قبضته صار قابضا عند أبي حنيفة، وجعل تمكنه من القبض كالقبض كالتخلية في البيع، وقال أبو يوسف: لا بد من القبض بيده ا هـ،  بحر. قال ابن الكمال: قبض كل شيء بما يناسبه فقبض مفتاح الدار قبض لها وقبض ما يحتمل القسمة يكون بها وقبض ما لا يحتملها يكون بقبض كله ا هـ.
قال في التاترخانية: قد ذكرنا أن الهبة لا تتم إلا بالقبض، والقبض نوعان: حقيقي وإنه ظاهر، وحكمي وذلك بالتخلية، وقد أشار في هذه المسألة أي مسألة التمكن من القبض إلى القبض الحكمي، وهو القبض بطريق التخلية، وهذا قول محمد خاصة، وعند أبي يوسف التخلية ليست بقبض وهذا الخلاف في الهبة الصحيحة، فأما الهبة الفاسدة فالتخلية ليست بقبض اتفاقا ا هـ.
قوله (والمختار صحته) أي القبض بالتخلية، ظاهره وإن لم يقبضه الموهوب لهو وهو خلاف ما في حاشية الشلبي عن شرح الإسبيجابي أنه إذا كان العبد حاضرا فقال الواهب قد خليت بينك وبين الهبة فاقبضها فانصرف الواهب فقبضه الموهوب له جاز؛ لأن التخلية إقباض منه، فإذا قبضه بإذنه تم العقد، أما البيع فينزل قابضا بمجرد التخلية وإن لم يباشر القبض. والفرق أن القبض واجب عليه في البيع والبائع محتاج إلي إخراج نفسه من عهدة المبيع، فإذا أتى بما وسعه فقد برىء، وليس في وسعه إلا التخلية، وأما الهبة فإن التسليم ليس بواجب عليه فيها، فإذا لم يسلمه إليه ويقبضه لا يعد مسلما ا ه، بتصرفونقل بعده عن المحيط ما نصه: ومن النوادر رجل وهب من رجل ثوبا وهو حاضر فقال الموهوب له قبضته، قال أبو حنيفة: صار قابضا لأنه متمكن من قبضه فأقيم تمكنه مقام قبضه كالتخلية في باب البيع، وقال أبو يوسف: لا يصير قابضا ما لم يقبضه بنفسه لأنه غير قابض حقيقة اه، فعلى هذا محمد مع أبي حنيفة رحمهم الله تعالى، والقبض حقيقة عنده بالنقل من ذلك المكان اهـ،  ط.
المجلة (ص: 54):
 مادة 263: تسليم المبيع يحصل بالتخلية، وهو أن يأذن البائع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلیم المشتری إیاه.
مادة 271: إعطاء مفتاح العقار الذي له قفل للمشتري يكون تسليما.  
شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی (2/192):
المادة 263: تسلیم المبیع یحصل بالتخلیة: …… و هو أن یأذن البایع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلیم المشتری إیاه، یعنی أن التخلیة بین المشتری و المبیع تقوم مقام القبض الحقیقی إذا کانت علی وجه یتمکن فیها المشتری من القبض بعد أن یکون أذن له البایع بقبضه........الخ
المادة 265: تختلف كيفية التسليم باختلاف المبيع.  قال فی رد المحتار: و الحاصل أن التخلیة قبض حکما لو مع القدرة علیه بلا کلفة، لکن ذلك یختلف بحسب حال المبیع، ففی نحو حنطة فی بیت مثلا دفع المفتاح إذا أمکنه الفتح بلا کلفة قبض، و فی نحو دار فالقدرة علی إغلاقها قبض، أی بأن تکون فی البلد فیما یظهر.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

28   /شوال/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب