021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی کی زکاۃ نکالنے کا طریقہ کار
76988زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

سوال:    ایک کمپنی میں چار بھائی برابر کے حصے دار ہیں اور تولیہ ایکسپورٹ کا کام کرتے ہیں۔ ان کی زکاۃ سے متعلق رہنمائی درکار ہے۔ تفصیلات یہ ہیں:

1.     کمپنی کی موجودہ مالی حالت یہ ہے کہ تمام اثاثہ جات  جاریہ اور واجبات جاریہ (Current Assets & Current Liabilities) نکال کر کمپنی کے پاس ایک کروڑ پانچ لاکھ تین سو روپے کا سرمایہ فروری 2022 کے آخر تک تھا۔

2.     کمپنی کے ذمے بینک کا پرانا قرضہ بیاسی کروڑ ساٹھ لاکھ روپے ہے۔ (سائل نے زبانی بتایا کہ اس قرض میں ایک حصہ سود کا بھی ہے۔)

3.     کمپنی کے اثاثہ جات جو بینک کے پاس گروی ہیں اور جو گروی نہیں ہیں، ان کی مالیت ایک ارب روپے ہے۔ اس طرح بینک کا قرض نکالنے کے بعد غیر گروی اثاثہ جات کی رقم سترہ کروڑ چالیس لاکھ روپے بنتی ہے۔

4.     ہم نے زکاۃ کے لیے دو آپشن بنائے ہیں۔ پہلے آپشن کے مطابق زکاۃ نہیں بنتی کیوں کہ بینک کا قرض مال تجارت سے زیادہ ہے جب کہ دوسرے آپشن کے مطابق قابل زکاۃ رقم ایک کروڑ پانچ لاکھ تین سو روپے بنتی ہے کیوں کہ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی مالیت بینک کے قرض سے زیادہ ہے۔

5.     سوال یہ ہے کہ کیا کمپنی کے مالکان پر زکاۃ لاگو ہو سکتی ہے اور قابل زکاۃ رقم کیا ہوگی؟ اور دونوں آپشن میں سے کون سا آپشن لاگو ہوگا؟

6.     پچھلے سال تک کمپنی کے تمام منقولہ و غیر منقولہ اثاثہ جات کی مالیت بینک کے قرض سے قدرے کم تھی۔

7.     کمپنی پورے سال زکاۃ کی مد میں لوگوں کو دیتی رہتی ہے اور قمری سال کے حساب سے ہر سال یکم رمضان سے تیس شعبان تک دی ہوئی زکاۃ کا حساب کرتی ہے۔ کل زکاۃ سے چاروں بھائی اپنی واجب الادا زکاۃ وضع کرتے ہیں یعنی کمپنی کے سرمائے میں ان کے حصے اور ذاتی حیثیت میں سونے اور چاندی کی شکل میں جو زیورات ان کے زیر کفالت افراد کے پاس ہیں ان پر زکاۃ نکالتے ہیں اور پورے سال میں جو زکاۃ ادا کی گئی ہے اس سے وضع کرتے ہیں۔

8.     کمپنی کا خالص کاروباری سرمایہ ایک کروڑ پانچ لاکھ تین سو روپے سےجو چاروں بھائیوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر ہر ایک کے حصے میں چھبیس لاکھ پچیس ہزار پچھتر روپے بنتا ہے۔  اس طرح ہر بھائی کے حصے میں اپنے سرمائے کے مطابق واجب الادا زکاۃ پیسٹھ ہزار چھ سو ستائیس روپے بنتی ہے یعنی کل زکاۃ ایک کروڑ پانچ لاکھ تین سو روپے کاروباری سرمائے پر دو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو سات روپے بنتی ہے۔

9.     کمپنی کے مالکان نے یکم رمضان سے تیس شعبان تک کل زکاۃ تیس لاکھ پچاس ہزار روپے ادا کی ہے جس میں سے واجب الادا زکاۃ کی رقم نکالنے کے بعد ستائیس لاکھ ستاسی ہزار چار سو ترانوے روپے زیادہ زکاۃ ادا کی گئی ہے۔ اس طرح سرمائے پر تو زکاۃ ادا ہو گئی لیکن زیر کفالت افراد اور خود ان کے پاس جو نقد اور قابل زکاۃ اشیاء ہیں، اس پر زکاۃ ادا نہیں ہوئی۔

اضافہ: سائل کو اس سوال کا جواب مع اصول درکار ہے تاکہ آئندہ زکاۃ کا حساب بآسانی کیا جا سکے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح ہو کہ فرد یا کاروبار کی زکاۃ چار قسم کے اموال پر لازم ہوتی ہے:

1.     سونا

2.     چاندی

3.     نقد رقم یا بینک میں موجود رقوم (کسی کو دیا گیا قرض یا کسی سے قابل وصول رقم (Receivables) بھی اس میں شامل ہیں)

4.     مال تجارت (ایسا مال جو بیچنے کی نیت سے خریدا ہو اور وہ نیت ابھی باقی ہو)

ان چار چیزوں کے علاوہ جو اشیاء استعمال کے لیے (بلڈنگ، گاڑی وغیرہ) یا مینوفیکچرنگ کے لیے (مشینری وغیرہ) ہوں ان پر زکاۃ لازم نہیں ہوتی۔ اسی طرح کسی کاروبار کے لیے جو قرض لیا جائے اس کے استعمال کی  دو قسمیں ہوتی ہیں:

1.     وہ قرض ایسی اشیاء کے خریدنے میں استعمال کیا جائے جو خود قابل زکاۃ ہیں، مثلاً اس سے مال تجارت خریدا جائے۔ ایسا قرض زکاۃ سے منہا کیا جائے گا۔

2.     وہ قرض ایسی اشیاء میں استعمال کیا جائے جو خود قابل زکاۃ نہیں ہیں، مثلاً عمارت تعمیر کرنے یا مشینری خریدنے میں استعمال ہو۔ ایسا قرض زکاۃ سے منہا نہیں کیا جائے گا۔

نیز اگر قرض سودی ہو اور اس کا سود بھی قرض کی کل رقم میں شامل ہو تو اسے زکاۃ سے منہا نہیں کیا جائے گا۔

مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں سوال میں مذکور صورت کا حکم ترتیب وار یہ ہے کہ :

1.     کمپنی کے پاس موجود سونا، چاندی، نقد یا بینک میں موجود رقوم، قابل وصول رقوم اور مال تجارت کی کل مالیت کو جمع کیا جائے۔

2.     پھر اس میں سے قرض کے علاوہ قابل ادا رقوم  ، مثلاً تنخواہیں، خریدے ہوئے مال کے دیون  (Payables) کو منہا کیا جائے۔

3.     اس کے بعد جو رقم بچے اس سے بینک کا وہ قرض منہا کیا جائے جس کا استعمال ایسی چیزوں کی خریداری میں ہوا تھا جو خود قابل زکاۃ تھیں، جیسے مال تجارت (Inventory) وغیرہ۔ یاد رہے کہ صرف اصل قرض منہا کیا جائے گا، سود کی رقم منہا نہیں کی جائے گی۔

4.     اس کے بعد جو رقم بچے اسے مالکان میں ہر ایک کے حصے کے مطابق اس کے نام لکھ دیا جائے۔

5.     اب ہر مالک اپنے پاس موجود سونا، چاندی، نقد یا بینک میں موجود رقوم، مال تجارت اور اس کمپنی کی رقم کو جمع کرے اور اس سے اپنے اوپر واجب وہ قرضے منہا کرے جو کمپنی کے قرضوں سے الگ ہوں (چاہے وہ کسی بھی مقصد سے لیے گئے ہوں)۔

6.     قرضے منہا کرنے کے بعد بچنے والی رقم  اگر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر یا اس سے زائد ہو تو اس مالک پر اس رقم کا اڑھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ اگر رقم نصاب کے بقدر نہ ہو تو زکاۃ بھی لازم نہیں ہوگی۔

7.     اب جو رقم کمپنی سے بطور زکاۃ ادا کی گئی ہے اسے مالکان کے حصوں کے بقدر تقسیم کر لیا جائے۔ ہر مالک اپنی قابل ادا زکاۃ کی رقم کا اس سے تقابل کر لے۔ اگر ادا شدہ رقم کم ہے تو باقی زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔ اگر ادا شدہ رقم برابر ہے یا زیادہ ہے تو مزید زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ فرد پر زکاۃ صرف اپنے مال کی لازم ہوتی ہے، زیر کفالت افراد کی زکاۃ شرعاً لازم نہیں ہوتی۔ ہاں اگر چاہے تو تو زیر کفالت بالغ افراد کی زکاۃ  ان کی اجازت سے ادا کر سکتا ہے۔

حوالہ جات
الخليطان في المواشي كغير الخليطين فإن كان نصيب كل واحد منهما يبلغ نصابا وجبت الزكاة، وإلا فلا سواء كانت شركتهما عنانا أو مفاوضة أو شركة ملك بالإرث أو غيره من أسباب الملك وسواء كانت في مرعى واحد أو في مراع مختلفة فإن كان نصيب أحدهما يبلغ نصابا ونصيب الآخر لا يبلغ نصابا وجبت الزكاة على الذي يبلغ نصيبه نصابا دون الآخر، وإن كان أحدهما ممن تجب عليه الزكاة دون الآخر فإنها تجب على من تجب عليه إذا بلغ نصيبه نصابا.
(الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 1/181، ط: دار الفكر)

محمد اویس پراچہ     

دار الافتاء، جامعۃ الرشید

27/ شوال المکرم 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس پراچہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے