021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کی تعمیر کے لیے دی گئی رقم ترکہ میں شامل ہوگی یا نہیں؟
77008وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

مرحومہ نے اپنی زندگی میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے 50 لاکھ روپےاپنے داماد کودیے تھے، اور  اس خواہش کا اظہار کیا تھا  کہ بقیہ چار کروڑ بھی ایک دو سالوں  میں مسجد کی تعمیر کے لیے  وہ  دے دیں  گی۔ ایسی صورت میں  یہ 50 لاکھ رقم کو کسی بھی مسجد کی تعمیر میں لگائی جاسکتی ہے؟  نیز  بقیہ  رقم  مسجد کی تعمیر میں  دینے کی جس خواہش کا انہوں نے اظہار کیا تھا  اس پر عمل درآمد ورثاء پر ضروری ہے؟

تنقیح: سائل (محمود صاحب) نے فون پر بتایا کہ نجم اقبال شمسی صاحبہ کا ایک مسجد بنوانے کا ارادہ تھا، انہوں نے پچاس لاکھ روپے میرے حوالے کردئیے تھی کہ یہ مسجد کے لیے ہے اور آپ مسجد بنوادیں۔ اس وقت دو مساجد کی تجویز سامنے تھی، ایک مسجد کا پروپوزل تقریبا دو کروڑ روپے کا تھا، اور ایک مسجد کا ساڑھے چار کروڑ روپے کا۔ میں نے ان کے سامنے دونوں مساجد کی پروپوزل رکھ دی۔  جو ساڑھے چار کروڑ والی مسجد تھی، انہوں نے کہا میں یہ بڑی مسجد بنوانا چاہتی ہوں۔ اس وقت اس مسجد کے کاغذات منظوری کے لیے حکومت کے پاس گئے تھے، جنہوں نے زمین دی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ اس کی منظوری کا عمل نومبر تک ختم ہوگا، اور نومبر میں تعمیر شروع ہوجائے گی۔ انہوں (نجم اقبال صاحبہ) نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ مسجد کی تعمیر شروع کرادیں، جیسے جیسے ضرورت پڑے گی، اس کے باقی پیسے بھی میں دیتی رہوں گی۔  یہ مسجد سوسائٹی میں ہے، سوسائٹی میں مسجد کے لیے جو پلاٹ ہوتا ہے، مختلف لوگ اس پر مساجد تعمیر کرتے ہیں، سوسائٹی والے اپنے جاننے والوں سے کہہ دیتے ہیں کہ اگر آپ مسجد تعمیر کرانا چاہتے ہیں تو یہاں تعمیر کراسکتے ہیں۔ چنانچہ اس سوسائٹی کے بلڈر سے ہماری بات ہوئی تھی کہ یہاں مسجد ہم تعمیر کرائیں گے، ہم نے ان کو مسجد کا نام بھی دیدیا تھا کہ "نجم مسجد" کے نام سے مسجد ہوگی، یعنی نجم اقبال شمسی صاحبہ کے نام پر۔ مسجد جو لوگ تعمیر کراتے ہیں، وہ مسجد تعمیر کرا کر محلے والوں کے حوالے کردیتے ہیں، پھر مسجد کی انتظامیہ کمیٹی بنتی ہے۔ میں اس مسجد کا متولی نہیں تھا، نجم اقبال صاحبہ نے مجھے جو رقم دی تھی وہ امانتا دی تھی کہ جب مسجد کی تعمیر شروع ہوگی تو آپ اس میں خرچ کرلینا۔

پھر اسی دوران میں نے ہی ان سے کہا کہ ہم یہاں ڈی ایچ اے کراچی میں مسجد کے لیے پلاٹ دے رہے ہیں، اگر ہم کو یہاں پہ پلاٹ مل جاتا ہے تو ہم یہاں پہ بنوالیتے ہیں۔ یہ گھر کے بھی قریب ہے۔  تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے، دونوں میں سے اگر ڈی ایچ اے کراچی کے اندر پلاٹ مل جائے تو اس کے اندر مسجد تعمیر کرادیں، نہیں تو یہ دوسری مسجد کا معلوم ہی تھا کہ ہم اس میں کرادیں گے۔ ڈی ایچ اے کراچی میں پلاٹ کے لیے درخواست ہم نے دی تھی، لیکن ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اور وہ بڑی مسجد، ساڑھے چارکروڑ روپے والی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، وہ نومبر میں ان شاء اللہ شروع ہوگی۔

نجم اقبال صاحبہ کا مسجد تعمیر کرانے کا ارادہ پکا تھا، باقی مذکورہ بالا دونوں میں سے کسی بھی مسجد میں یہ رقم لگانے پر رضامند تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جب مرحومہ نے یہ رقم اپنے داماد کو امانتًا دی تھی کہ جب مسجد کی تعمیر ہو تو یہ رقم اس میں لگادیں، اور رقم مسجد میں خرچ ہونے سے پہلے ان کا انتقال ہوا تو اب یہ رقم مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہے، جو ان کے تمام ورثا میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ یہ رقم مسجد کی تعمیر میں لگانا ورثا پر لازم نہیں۔ البتہ مرحومہ کے ساتھ حسنِ سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے عاقل بالغ ورثا ان کی اس نیک نیت اور خواہش کو پورا کریں اور یہ رقم مسجد کی تعمیر میں لگادیں، اگر وہ ایسا کریں گے  تو ان کو بھی اس کا ثواب ملے گا۔  

  اسی طرح مرحومہ نے بقیہ ساڑھے چار کروڑ رقم دینے کا جو ارادہ ظاہر کیا تھا، وہ بھی ورثا کے ذمے پورا کرنا لازم نہیں۔ البتہ اگر عاقل بالغ ورثا اپنی رضامندی سے اپنے اپنے حصے میں سے مرحومہ کی اس خواہش کو پورا کریں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا، اور ان شاء اللہ ان کو بھی اس کا ثواب ملے گا۔  

حوالہ جات
۔

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

28   /شوال/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب