021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمپنی ملازم کا کسی کو مال دلا کر کمیشن حاصل کرنےکا حکم
77034جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

جناب مفتی صاحب میرا  سوال یہ ہے کہ  میں  ایک کمپنی ملازم  ہوں  جو مختلف مصنوعات  بناتی  ہے ، اکثر کھانے سے متعلق   ہے ،اب بات یہ ہے کہ   کمپنی کا ایک ملازم جو کہ  اشیا ء کو بیچنے کا  کام کرتاہے ﴿ اس   کی ڈیوٹی  یہی  ہے ﴾اب مسئلہ   یہ ہے    کہ جو چیز مارکیٹ میں  بالفرض   28 روپے کیلو  کے اعتبار سے  فروخت  ہوتا ہے، میں یہ مال  اپنے کسی واقف  کار کے  نام بک کروا  لیتا  ہوں  اس کے کہنے پر   کمپنی   کے ریٹ پر  یا اس  سے  چند  پیسے زیادہ پر  بالفرض   28 روپے  کا  مال ہے   میں 28 روپے   25 پیسے پر   بک کروا  لیتا ہوں ۔ پھر   جب  یہ مال  اس شخص  کو   دیتا  ہوں جس کے  نام بک کروایا  ہے تو اس میں اپنا  منافع رکھ کر   فروخت  کردیا آیا  یہ منافع  میرے لئے  لینا جائز  ہے یا  نہیں ؟

 اس کی  تین صورتین  پہلی صورت  جسے  مال  دلایا  ہے اسے  میرے  منافع  لینے کا  علم نہیں  ہے ۔

دوسری صورت  اس کو  میرے  منافع  لینے  کا  علم  ہو   اور وہ اس پر  راضی  بھی  ہو  تو  جائز ہے یا نہیں ؟

تیسری  صورت  میں اس کو  بالکل کمپنی   ریٹ پر مال  دلاتا  ہو ں   پھر  خریدار  اپنی خوشی   سے  کچھ رقم دیدیے   تو اس کا لینا میرے لئے  جائز ہے یا نہیں ؟اگر  یہ صورتیں جائز نہیں  ہیں   تو  کوئی  جائز صورت بتادیں   کہ   بندہ کمپنی رہتے ہوئے  کوئی  رقم کماسکے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ خریدار کےلئے محضوکیل ہیں ،آپ  کا  خریدار  کے  ساتھ نفع  لینے  دینے کا  کوئی  معاہدہ  نہیں ہوا  اس لئے  صورت مسئولہ  میں آپ کے لئے  نفع کے  نا م  پر اصل  قیمت  سے زائد  رقم وصول کرنا  جائز نہیں ۔

  1. اگرکمپنی کی  طرف  سے آپ کی ذمے داری مال فروخت کرنا  ہے  اوراس عمل کی کمپنی آپ کو اجرت دیتی ہے تو  آپ کمپنی کے وکیل ﴿ایجنٹ ﴾ہیں اس پر مذکورہ  طریقہ  سے اضافی  رقم  طےکرنا جائز  نہیں ۔ کیونکہ خرید  وفروخت میں ایک شخص دونوں کا وکیل نہیں بن سکتا۔
  2. رہا یہ سوال کہ کمپنی میں رہ کر جائز نفع کمانے کی کوئی صورت،تو سمجھ لیںکہ آپ کو کمپنیسے اپنے کام کی اجرتتومل رہیہےلہذا اسی کام پر کسی اورسےاضافی اجرت نہیں لے سکتے ،البتہ اضافی رقم کمانے کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ ڈیوٹیٹائم کے علاوہاور ٹائم میں کام کریں ، تو اضافیتنخواہ مل جائے گی ۔
حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 280)
والأصل أن الواحد لا يتولى طرفي العقد في الرهن ولا البيع
 بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 232)
إلا أنه إذا كان وكيلا لا يقوم بهما؛ لأن حقوق العقد مقتصرة على العاقد، فلا يصير كلام العاقد كلام الشخصين؛ ولأن حقوق البيع إذا كانت مقتصرة على العاقد وللبيع أحكام متضادة من التسليم والقبض والمطالبة، فلو تولى طرفي العقد لصار الشخص الواحد مطالبا ومطلوبا ومسلما ومتسلما وهذا ممتنع - والله عز وجل أعلم -.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 221)
 ولو اختلف الصانع والمستأجر في أصل الأجر كالنساج والقصار، والخفاف
والصباغ فقال رب الثوب والخف: عملته لي بغير شرط، وقال الصانع: لا؛ بل عملته بأجرة درهم، أو اختلف رب الدار مع المستأجر فقال رب الدار: أجرتها منك بدرهم، وقال الساكن بل سكنتها عارية، فالقول قول صاحب الثوب، والخف، وساكن الدار في قول أبي حنيفة مع يمينه، ولا أجر عليه، وقال أبو يوسف: إن كان الرجل حرا ثقة فعليه الأجر، وإلا فلا، وقال محمد: إن كان الرجل انتصب للعمل فالقول قوله، وإن لم يكن انتصب للعمل فالقول قول صاحبه، وعلى هذا الخلاف إذا اتفقا على أنهما لم يشترطا الأجر لكن الصانع قال: إني إنما عملت بالأجر، وقال رب الثوب: ما شرطت لك شيئا، فلا يستحق شيئا.(وجه) قولهما اعتبار العرف والعادة فإن انتصابه للعمل، وفتحه الدكان لذلك دليل على أنه لا يعمل إلا بالأجرة، وكذا إذا كان حريفه فكان العقد موجودا دلالة، والثابت دلالة كالثابت نصا.ولأبي حنيفة أن المنافع على أصلنا لا تتقوم إلا بالعقد، ولم يوجد، أما إذا اتفقا على أنهما لم يشترطا الأجر فظاهر، وكذا إذا اختلفا في الشرط؛ لأن العقد لا يثبت مع الاختلاف للتعارض فلا تجب الأجرة، ثم إن كان في المصنوع عين قائمة للصانع كالصبغ الذي يزيد، والنعل يغرم رب الثوب والخف للصانع ما زاد الصبغ والنعل فيه لا يجاوز به درهما، وإلا فلا والله - عز وجل - أعلم.   

 احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۵ ذی قعدہ ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب