77035 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
بندہ محمد بن عارف اپنے دادا کی جائیداد میراث میں سے حصہ لینا چاہتا ہے، میرے دادا کا انتقال 2012 میں ہوا، اس کے ایک سال بعد میرے والد صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے، جس وقت آخری عمر میں دادا جان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی تو انہوں نے اپنے تمام بچوں کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا ارادہ کیا لیکن وقت نے انہیں مہلت نہیں دی اور ان کا انتقال ہوگیا، اس لئے ان کے حیات میں ورثہ کے درمیان جائیداد تقسیم نہ ہوسکی۔
اب میں پورے گھر کی کفالت کرنے والا اکیلا شخص ہوں، مجھے اپنی تعلیم، بہنوں کی کفالت اور گھر کے دیگر اخراجات کیلئے اپنے حصے کی اشد ضرورت ہے، مندرجہ ذیل میں دادا اور والدصاحب دونوں کے ورثاء علیحدہ علیحدہ ذکر کئے جاتے ہیں تاکہ آپ حضرات قرآن وسنت کی روشنی میں مجھے میرے دادا سے ملنے والا حصہ بتاسکیں۔
دادا کے ورثاءمیں پانچ بیٹے ،تین بیٹیاں جبکہ میرے والد صاحب کے ورثاءمیں ایک بیوہ ،دو بیٹیاں اورایک بیٹا شامل ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
دادا کے انتقال کے وقت پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں موجود تھے، بعد میں ان کے ایک بیٹے کا انتقال ہوا ، لہذا دونوں میتوں کے ورثہ میں ترکہ حسب ذیل تقسیم ہوگا:
سب سے پہلے مرحوم دادا کی جائیداد کو 13 حصوں میں تقسیم کیا جائے ، جس میں سے دو دو حصے ان کے ہر بیٹے کو، اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دیا جائے ۔
فیصدی اعتبار سے ان کے درمیان ترکہ یوں تقسیم ہوگا کہ ہر بیٹے کو 15.3846% فیصد اور ہر بیٹی کو7.6923% فیصد دیا جائے۔
اس کے بعد جس بیٹے کا انتقال ہوا ہے، (یعنی آپ کے والد صاحب) ان کو اپنے والد صاحب سے ملنے والا حصہ15.3846% اور ان کی اپنی ذاتی جائیداد کو 32 حصوں میں تقسیم کیا جائے ، جس میں سے ان کی بیوہ کو 4 حصے، بیٹے کو 14 حصے اور ہر بیٹی کو 7 حصے دیئے جائیں ۔
فیصدی اعتبار سے ترکہ کی تقسیم یوں ہوگی کہ بیوہ کو 12.5% فیصد، بیٹے کو 43.75% اور ہر بیٹی کو21.875% فیصددیا جائے۔
حوالہ جات
القرآن الکریم [النساء: 11]
{یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین}
القرآن الکریم [النساء: 11]
{ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مماترکتم من بعد وصیۃ توصون بھا او دین}
محمدنصیر
دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی
04/ذی قعدہ 1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نصیر ولد عبد الرؤوف | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |