021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بطورامانت رکھوائی گئی رقم کاضمان کس پرہوگا؟
77191امانتا اور عاریة کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیان شرع مندرجہ ذیل مسائل کےبارےمیں ؟

1:میں ایک ادارے(اسکولنگ سسٹم)میں بطوراکاؤنٹینٹ تقریبا عرصئہ چارسال سےخدمات سرانجام دےرہا ہوں ،روزانہ کی بنیادپرجوفیسیں وصول کی جاتی ہیں ،وہ چھٹی سےپہلےپہلےادارےکےشعبئہ مالیات میں جمع کرانی ہوتی ہے،پوچھنایہ ہےکہ اس جمع شدہ رقم کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟

2:جس جگہ بیٹھ کرمیں فیسیں وصول کرتاہوں وہ نہ کوئی باقاعدہ فیس وصولی کےلیےبنایاگیاکمرہ ہےاورنہ ہی کاؤنٹربلکہ کھلےصحن میں بٹھایاگیاہے،ایک چھوٹی سی ٹیبل اوراس کےساتھ ایک اس  سےبھی چھوٹی سائیڈٹیبل جس میں لاکرہےبلکہ وہ لاکربھی نہ ہونےکےبرابرہے،یعنی اس کالاک اسکیل وغیرہ سےبھی کھل جاتاہےاورنہ ہی کوئی تجوری وغیرہ دی گئی ہےجبکہ جمعہ کےدن شعبہ مالیات کی چھٹی ہوتی ہےاورجمعہ والےدن کی رقم ہفتےوالے دن جمع کرانی پڑتی ہےتواس صورت میں اگرجمعہ کی فیس شعبہ مالیات میں جمع نہ ہواوراس لاکرسےفیس کی رقم چوری ہوجائےجبکہ چوری بھی چھٹی کےبعدہوئی ہوتواس کاضمان کس پرآئےگا؟اوراگراس چوری شدہ رقم کا مطالبہ اسکول اکاؤنٹینٹ سےکیاجائےتوکیااس پررقم کی ادائیگی لازم؟ ہےجبکہ وہ حلفاکہہ رہاہےکہ اس رقم کےبارےمیں اسےکچھ بھی علم نہیں ہے، واضح رہےکہ یہ چوری والاواقعہ ان چارسالوں میں پہلی مرتبہ ہواہے۔

3:کیااصولااورقانوناادارےکوفیس کی وصولی کےلیےکوئی محفوظ جگہ فراہم کرنی چاہیے؟ بینواوتوجروا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بحیثیت اکاؤنٹینٹ ، جورقم آپ بطورفیس وصول کرتےہیں،وہ آپ کےپاس امانت ہوتی ہے،لہذااگروہ رقم آپ کی کوتاہی اورغفلت کےبغیرہلاک یاچوری ہوجائےتواس کاضمان آپ پرنہیں ہوگا۔

فیس کی رقم کےلیےمحفوظ جگہ فراہم کرنا،یہ ادارےکی ذمہ داری ہےلیکن اگرادارہ باوجود آگاہی کےمحفوظ جگہ فراہم نہیں کرتا،توپھرفیس کی ہلاکت یاچوری کی صورت میں آپ ذمہ دارنہیں ہوں گے،بشرطیکہ آپ کی طرف سےکوئی کوتاہی یاغفلت نہ پائی جائے۔

حوالہ جات
«المحيط البرهاني في الفقه النعماني» (5/ 529):
والأمانة ‌لا ‌تضمن بدون التعدي
«تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي» (3/ 320):
قال - رحمه الله - (ويده في المال أمانة) لأنه قبضه بإذن صاحبه لا على وجه المبادلة والوثيقة فصار كالوديعة والعارية
«المبسوط للسرخسي» (12/ 58):
وقبض ‌الأمانة دون قبض الضمان، والضعيف لا ينوب عن القوي، وكذلك هذا في العارية والإجارة؛ لأن قبض المستعير والمستأجر قبض أمانة كقبض المودع أو أقوى منه
«النتف في الفتاوى للسغدي» (1/ 438):
والسادس ان يكون المبيع وديعة او عارية او اجارة او رهن بضاعة او ما يكون فيه امينا فباعه الى من كان عنده فان هذا البيع جائز الا انه يحتاج الى قبض جديد لان القبض الاول قبض اماتة والقبض الثاني قبض ضمان وقبض ‌الامانة لا يقوم مقام قبض الضمان وان هلك المبيع قبل قبض المشتري ثانيا فأنه يهلك على البائع وان هلك بعد القبض الجديد هلك على المشتري
«النتف في الفتاوى للسغدي» (2/ 639):
والحادى والعشرون لاتجتمع الامانة مع الضمان فى قول ابي حنيفة وصاحبيه وابي عبد الله

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۲۰ذی قعدہ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب