021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اسلامک شریعہ کونسل کیلیفورنیا (USA)کےفسخ نکاح کےفیصلےکاشرعاکیاحکم ہے؟
77072طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں (سیدعبدالباسط بخاری ) میرا نکاح  10 مارچ 2018ء  کو میرا نکاح میری کزن(کرن شاہ  ) جوکہ امریکہ سے آئی تھی اس سے ہوااور رُخصتی نہیں ہوئی  چونکہ وہ بعد میں امریکہ میں ہونی تھی ،نکاح کے ایک ماہ بعد واپس چلی گئی تھی جس کے بعد سے ہماری صرف فون پر بات ہوتی تھی اسی دوران فون پرمیسج پر ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہواجس کے بعد اس نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا ،چونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں نے بڑوں کو اسے سمجھانےاس کے گھر بھیجاجس پر اس نے کہا کہ وہ رشتہ نہ ختم کرنے کے بارے میں سوچےگی اس کے بعد 26 ستمبر2019ءکو امریکن ایمبیسی میں میرا انٹرو یو ہواجس کے بعد ایمبیسی والوں نےپروسس مکمل کرنے کے لئے کچھ وقت مانگا،میں نے اپنے سسرال والوں کو ویزہ انٹرویو کےبارے میں بتایاجوکہ میری بیوی کے ساتھ امریکہ میں رہتے ہیں،اس دوران میرا رابطہ سسرال والوں کے ساتھ تھا،تقریباً ایک سال گزرنے کے بعد26اکتوبر2020ء کو مجھے امریکہ ایمبیسی نے دوبارہ ویزہ دینے کے لئےبلایاچونکہ بڑوں کے کہنے پرمیرا میری بیوی کے ساتھ رابطہ رُخصتی تک بندتھاتو میں نے اپنی ساس کو انٹرویو کے کچھ ہفتے پہلےاپنے انٹرویو کے بارے میں بتایا،کچھ دنوں بعد انٹرویو سےپہلے مجھے ایمبیسی سے فون آیا کہ آپ کی بیوی نے آپ کا انٹرویو روک دینے کے لئے رابطہ کیا ہے،ایمبیسی والوں نے میرے کہنے پرمجھ سے کہاکہ جب آپ دونوں کے اختلافات ختم ہو جائیں تو آپ کی بیوی ویزہ پروسس کودوبارہ شروع کر کے جاری کر سکتی ہے،جب میں نے اپنی بیوی سے رابطہ کیا تو اس نے ویزہ پروسس کو جاری کرنے سے انکار کردیااور کہا کہ وہ مجھ سے طلاق چاہتی ہے۔

چونکہ میں اس سے یہ رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتا تھا اپنی محبت کی وجہ سےلیکن پھر بھی اپنے والد صاحب کے سمجھانے پر میں اس بات پر نہایت ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کچھ شرائط پراُس کو چھوڑنے کے لیے راضی ہوا،وہ شرائط یہ تھی کہ  :

کہ مجھے یہاں سے امریکہ لے جایا جائےچونکہ میں نے تین سال انتظار کیااور مجھے یہ سب کچھ ہونے کے بعد جرمنی جانے کے لئےمشکلات پیدا ہوئے،یہاں پر میں یہ بتا تا چلوں کہ مجھے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کے لئے جرمنی جا نا تھا جو کہ میری بیوی کو معلوم تھا نکاح کے بعد۔

چونکہ میری بیوی نے میرا پہلا مطالبہ مسترد کیا تو میں نے دوسرا مطالبہ یہ کیاکہ مجھے کسی بھی یورپین ملک ماسٹر ز کے لئےآپ لوگ میری مدد کریں گےچونکہ میرے والد صاحب جو پہلے سعودی عرب میں تھے وہ وہاں سے پاکستان آچکے تھے اور انکا بینک اکاؤنٹ پاکستان میں نہیں تھا ، اُنہوں نے میرا یہ دوسرا مطالبہ بھی مُسترد کیا۔

میری پھپھوجو کہ امریکہ میں رہتی ہےاُنہوں نے بھی ان سے مطالبہ کیا کہ میرے بھتیجے کو میرے پاس امریکہ آنے دیا جائےکیونکہ میرے بھتیجے کا وقت ضائع ہوا ہےاور میری ذمہ داری میری پھپھو نے خود اُٹھا نے کا کہا،لیکن میری بیوی نے یہ مطالبہ بھی مسترد کیا۔

کچھ عرصے بعد26جولائی2021ءمیں اسلامک شریعہ کونسل آف کیلی فورنیا (امریکہ)سے ایک ای میل موصول ہوا جس میں انہوں نے لکھا کہ آپ کی بیوی ان وجوہات کی وجہ سے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے:

1۔کہ میں نے اس کو نان نفقہ نہیں دیا ۔

2۔کہ میں نے اس کے ساتھ ذہنی اور جذباتی ذیادتی کی ہے۔

3۔کہ وہ مجھ سے خوف ذدہ ہے۔

جسکا جواب میں  نے ان کو تفصیلاً بھیجالیکن اس کے بعد کونسل والوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے رہے ہیں یا ہم دے دیں ،جس پر میں نے کہا کہ میرے مطالبات مانے جائیں لیکن کونسل والوں نے کہا کہاوہ مطالبات وہ پورا نہیں کر سکتی ،اور آج 11اپریل2022ءکو اُنہوں نے نکاح فسخ  کر لیا جس کے وجوہات انہوں نے فتویٰ میں لکھی ہےجو کہ میں اس سوال کے ساتھ بھیج رہا ہوں۔

میں آج بھی اپنی بیوی کو رکھنے کے لئے تیار ہوں چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو۔

برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیےکہ کونسل نے جو وجوہا ت فتویٰ میں بیان کی ہیں اس لحاظ سے کیا ان کو حق حاصل ہےکہ میری مرضی کے بغیر میری بیوی کو میری نکاح سے آزاد کرے؟

مجھے اگر اس پر فتویٰ انگلش میں مل جائےتو بہت بہتر ہو گا ۔شکریہ نوٹ : اس استفتاء  کے ساتھ کونسل والوں نے جو سوالات مجھ سے پوچھے تھےان کے جوابات جو میں نے دئیے تھے  وہ ای میل اور کونسل والوں کا فتویٰ علمائے کرام کی رہنمائی کے لئے ساتھ بھیج رہا ہوں۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ فسخ نکاح کافیصلہ احناف کےمذہب کےمطابق شرعادرست نہیں ہے،کیونکہ فیصلہ میں فسخ نکاح کی جووجوہات بیان کی گئی ہیں (ا۔ شقاق:شدیدازدواجی اختلاف وانتشار۲۔تباین الدارین:میاں بیوی کادوالگ الگ ملکوں میں ہونا)یہ احنا ف کےمذہب کےمطابق فسخ نکاح کاسبب نہیں بن سکتی۔

اسی طرح(احناف کےعلاوہ)مذہب مالکیہ کودیکھاجائےتوان کےہاں شقاق کی وجہ سےنکاح فسخ کرنےکی  گنجائش ہے،بشرطیکہ میاں بیوی دونوں کی طرف سےان کےخاندان یادیگرلوگوں کوبطورحکم کےقاضی یافیصلہ کرنےوالوں کےپاس پیش کیاجائے،پھردونوں حکم کی موجودگی میں صلح کی جائےیانکاح فسخ  کیاجائے،جبکہ موجودہ صورت میں شریعہ کونسل کےفیصلہ میں  بظاہرحکم کی شرط کالحاظ نہیں رکھاگیا،اسی طرح اس فیصلہ میں  عورت کی طرفداری زیادہ معلوم ہوتی ہے،شوہرکےبقول  بیوی کی طرف سےجوالزامات لگائےگئےتھے،شوہرکی طرف سے(کونسل کوبصورت ایمیل )ان کاجواب بھی دیاگیا،لیکن کونسل کی طرف سےاس پرکوئی توجہ نہیں دی گئی ۔

واضح رہےکہ شادی کےبعدعورت پرشرعالازم ہےکہ شوہرکوحقوق زوجیت اداء کرنےکےلیےموقع فراہم کرے،اگربیوی موقع فراہم نہیں کرتی تووہ گناہگارہوگی،اوراس وجہ سےشوہرکوشرعاطلاق دینے کااختیاربھی ہوگا،موجودہ صورت میں بیوی کی طرف سےمختلف طریقوں سےرکاوٹ ڈالناشرعاناجائزہےاوربیوی اس عمل کی وجہ سےگناہگاربھی ہوگی۔

دوسری طرف شوہرکوبھی چاہیےکہ اگربیوی اس کےساتھ( کسی صورت )رہنےکےلیےتیارنہیں ہے(جیساکہ استفتاء  میں تفصیل ذکر کی گئی ہے)توشوہرکوبھی چاہیےکہ بغیرکچھ لیےطلاق دےکر فارغ کردےیاطلاق کےبدلےکچھ لیناہی ہےتومناسب رقم پرخلع کامعاملہ کرکےبیوی کوفارغ کردےتاکہ بیوی کسی دوسری جگہ شادی کرسکے،بلاوجہ ساتھ رہنےپرمجبورکرنا،اورطلاق دینےکےلیےمختلف قسم کی شرائط (جوشوہرکی طرف سےمطالبات کی صورت میں لکھی گئی ہیں) لگانا شرعامناسب نہیں ہے۔

حوالہ جات
"قال اللہ تعالی فی سورۃ النساء":آیت 35:
{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا {35}
"تفسير ابن كثير" 2 / 296:
قال الفقهاء: إذا وقع الشقاق بين الزوجين، أسكنهما الحاكم إلى جنب ثقة، ينظر في أمرهما، ويمنع الظالم منهما من الظلم، فإن تفاقم أمرهما وطالت خصومتهما، بعث الحاكم ثقة من أهل المرأة، وثقة من قوم الرجل، ليجتمعا وينظرا في أمرهما، ويفعلا ما فيه المصلحة مما يريانه من التفريق أو التوفيق (2) وتشوف الشارع إلى التوفيق؛ ولهذا قال: { إن يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما }
وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس: أمر الله عز وجل، أن يبعثوا رجلا صالحا من أهل الرجل، ورجلا مثله من أهل المرأة، فينظران أيهما المسيء، فإن كان الرجل هو المسيء، حجبوا عنه امرأته وقصروه على النفقة، وإن كانت المرأة هي المسيئة، قصروها على زوجها ومنعوها النفقة. فإن اجتمع رأيهما على أن يفرقا أو يجمعا، فأمرهما جائز. فإن رأيا أن يجمعا، فرضي أحد الزوجين وكره ذلك الآخر، ثم مات أحدهما، فإن الذي رضي يرث الذي كره ولا يرث الكاره الراضي. رواه ابن أبي حاتم وابن جرير۔
"موطأ مالك لمالك بن أنس" 4 / 841:
باب ما جاء في الحكمين:2169-حدثني يحيى عن مالك أنه بلغه أن علي بن أبي طالب قال في الحكمين اللذين قال الله تعالى{ وإن خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها إن يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما إن الله كان عليما خبيرا }إن إليهما الفرقة بينهما والاجتماع قال مالك وذلك أحسن ما سمعت من أهل العلم أن الحكمين يجوز قولهما بين الرجل وامرأته في الفرقة والاجتماع۔۔۔
"مصنف عبدالرزاق لأبو بكر الصنعاني" 6 / 512:
 11883 - عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن بن سيرين عن عبيدة السلماني قال شهدت علي بن أبي طالب وجاءته امرأة وزوجها مع كل واحد منهما فئام من الناس فأخرج هؤلاء حكما من الناس وهؤلاء حكما فقال علي للحكمين أتدريان ما عليكما إن رأيتما أن تفرقا فرقتما وأن رأيتما أن تجمعا جمعتما فقال الزوج أما الفرقة فلا فقال علي كذبت والله لاتبرح حتى ترضى بكتاب الله لك وعليك فقالت المرأة رضيت بكتاب الله تعالى لي وعلي۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

 /11ذیقعدہ 1443 ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب